صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
93. بَابُ الاِلْتِفَاتِ فِي الصَّلاَةِ:
باب: نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 751
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعث بن سلیم نے بیان کیا اپنے والد کے واسطے سے، انہوں نے مسروق بن اجدع سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 190  
´نمازی کو ہوشیار اور محتاط رہنے کی تاکید `
«. . . ‏‏‏‏إياك والالتفات في الصلاة،‏‏‏‏ فإنه هلكة،‏‏‏‏ فإن كان لا بد ففي التطوع . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز میں التفات (ادھر ادھر نظر دوڑانے) سے بچنے کی کوشش کرو یہ موجب ہلاکت ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 190]

لغوی تشریح:
«اَلْاِلْتِفَاتِ» دائیں بائیں نظر کرنا۔
«اَلْاِخْتِلَاسُ» کسی چیز کو سلب کرنا۔ جلدی سے کسی سے چیز چھین لینا۔
«إِيَّاكَ» کاف پر فتحہ ہے۔ مرد کو خطاب ہے۔ اور ترمذی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: بیٹے! نماز میں اپنے آپ کو التفات سے بچاؤ۔۔۔ الخ [جامع الترمذي، الجمعة، باب ما ذكر فى الالتفات فى الصلاة، حديث: 589]
«إِيَّاكَ» منصوب ہے تحذیر کی وجہ سے۔ مطلب یہ ہوا کہ ڈرو اور التفات سے بچو
«هَلَكَةٌ» ہا، لام اور کاف تینوں پر فتحہ ہے۔ معنی ہلاکت کے ہیں کیونکہ اس میں شیطان کی اطاعت ہے اور وہی اس پر برانگیختہ کرتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ انسان کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا حتی کہ نماز میں بھی اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح نماز سے غافل کر دے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم نمازی کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ادھر ادھر نظر پھیرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ نمازی نماز کے کسی نہ کسی جزو سے غافل اور بےپروا ہو جائے اور ثواب سے محروم رہ جائے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ہوشیار اور محتاط رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
➋ شدید اور سخت ضرورت کے وقت التفات کی اجازت ہے بشرطیکہ گردن گھومنے نہ پائے، صرف آنکھوں کے کونوں سے دیکھا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 190   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 910  
´نماز میں گردن موڑ کر ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کے نماز کے ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بندے کی نماز سے شیطان کا اچک لینا ہے (یعنی اس کے ثواب میں سے ایک حصہ اڑا لیتا ہے)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 910]
910۔ اردو حاشیہ:
گردن گھما کر دیکھنا بالکل ناجائز ہے، البتہ اشد ضرورت کے تحت کسی قدر نظر گھما کر دیکھے تو جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 910   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 751  
751. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: یہ تو (خشوع کو) اچک لینا ہے جو شیطان بندے کی نماز میں سے اچک لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:751]
حدیث حاشیہ:
اس کوالتفات کہتے ہیں یعنی بغیر گردن یا سینہ موڑے ادھر ادھر جھانکنا نماز میں یہ سخت منع ہے۔
پہلے صحابہ نماز میں التفات کیا کرتے تھے جب آیت کریمہ ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ (المومنون: 1)
نازل ہوئی تووہ اس سے رک گئے اورنظروں کو مقام سجدہ پر رکھنے لگے۔
حدیث میں آیاہے کہ جب نمازی باربار ادھر ادھر دیکھتاہے تواللہ پاک بھی اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتاہے۔
رواہ البزار عن جابر۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 751   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:751  
751. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دوران نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: یہ تو (خشوع کو) اچک لینا ہے جو شیطان بندے کی نماز میں سے اچک لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:751]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے پہلے ثابت کیا تھا کہ نمازی بحالت اقتدا امام کی حرکات وسکنات پر مطلع ہونے کے لیے امام کی طرف دیکھ سکتا ہے اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔
پھر اس بات کو ثابت کیا کہ بحالت نماز آسمان کی طرف نظر کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
اب ایک تیسری صورت بیان کرتے ہیں کہ نمازی اگر بلاوجہ ادھر ادھر نظر کرتا ہے تو اس کا یہ فعل ایک شیطانی حرکت ہے، یعنی شیطان اس طرح سے اس کی نماز کو ناقص بنا کر اس کے اجرو ثواب کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر رحمت رہتی ہے، بشرطیکہ وہ ادھر ادھر نہ جھانکے۔
جب وہ اپنے چہرے کو دوسری طرف کرتا ہے تو اللہ کی رحمت بھی اس سے دور ہوجاتی ہے۔
(جامع الترمذي، الأمثال، حدیث: 2863)
ایک روایت میں ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو ادھر ادھر مت دیکھا کرو۔
حدیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دوران نماز میں ادھر ادھر دیکھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ یہ آیات نازل ہوئیں:
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ -
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ (فتح الباري: 303/2)
تحقیق وہی اہل ایمان فلاح یافتہ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع کو برقرار رکھتے ہیں۔
(المومنون1: 23)
اس کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی نمازوں میں صرف اپنے آگے دیکھتے اور ان پر خوب توجہ دیتے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی نگاہیں سجدہ گاہ سے تجاوز نہ کریں۔
ان احادیث وآثار کی وجہ سے ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور دوران نماز میں ادھر ادھر جھانک کر اپنی نمازوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 751