صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
5. باب فِي أَنَّ الإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنْ الثِّقَاتِ وَأَنَّ جَرْحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِمْ جَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ وَأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ الْغِيبَةِ الْمُحَرَّمَةِ بَلْ مِنْ الذَّبِّ عَنْ الشَّرِيعَةِ الْمُكَرَّمَةِ
باب: حدیث کی سند بیان کرنا ضروری ہے، اور وہ دین میں داخل ہے، اور روایت صرف معتبر راویوں سے ہو گی، اور راویوں پر تنقید کرنا جائز ہے بلکہ واجب ہے،یہ غیبت محرمہ نہیں ہے، بلکہ وہ شریعت مکرمہ کا دفاع ہے۔
حدیث نمبر: 32
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذ َ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَانَ بْنَ عُثْمَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الإِسْنَادُ، لَقَالَ: مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، يَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ يَعْنِي الإِسْنَاد وقَال مُحَمَّدٌ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق إِبْرَاهِيمَ بْنَ عِيسَى الطَّالَقَانِيَّ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَك: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْحَدِيثُ الَّذِي جَاءَ، إِنَّ مِنَ الْبِرِّ، بَعْدَ الْبِرِّ، أَنْ تُصَلِّيَ لِأَبَوَيْكَ مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صَوْمِكَ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَبَا إِسْحَاق، عَمَّنْ هَذَا؟ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: هَذَا مِنْ حَدِيثِ شِهَابِ بْنِ خِرَاشٍ، فَقَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: ثِقَةٌ، عَمَّنْ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاق، إِنَّ بَيْنَ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاوِزَ، تَنْقَطِعُ فِيهَا أَعْنَاقُ الْمَطِيِّ، وَلَكِنْ لَيْسَ فِي الصَّدَقَةِ اخْتِلَافٌ وَقَالَ مُحَمَّدٌ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ شَقِيقٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: عَلَى رُءُوسِ النَّاسِ دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ
محمد بن عبد اللہ بن قہزاد نے (جو مرو کے باشندوں میں سے ہیں) کہا: میں نے عبدان بن عثمان سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اسناد (سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا) دین میں سے ہے۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا، کہہ دیتا۔ (امام مسلم رضی اللہ عنہ نے) کہا: اور محمد بن عبد اللہ نے کہا: مجھے عباس بن ابی رزمہ نے حدیث سنائی، کہا: میں نے عبد اللہ (بن مبارک) کو یہ کہتے ہوئے سنا: ہمارے اور لوگوں کے درمیان (فیصلہ کن چیز، بیان کی جانے والی خبروں کے) پاؤں، یعنی سندیں ہیں (جن پر روایات اس طرح کھڑی ہوتی ہیں جس طرح جاندار اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔) ابواسحاق نے (جن کا نام ابراہیم بن عیسیٰ طاتقانی ہے) کہا: میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ حدیث کیسی ہے جو روایت کی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بعد دوسری نیکی یہ ہے کہ تو نماز پڑھے اپنے ماں باپ کیلئے اپنی نماز کے بعد اور روزہ رکھے ان کے لیے اپنے روزے کے ساتھ۔ انہوں نے کہا: اے ابواسحاق! یہ حدیث کون روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: شہاب بن خراش۔ انہوں نے کہا: وہ تو ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: حجاج بن دینار سے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ثقہ ہے۔ پھر انہوں نے کہا: وہ کس سے روایت کرتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا۔ عبداللہ نے کہا: اے ابواسحاق! ابھی تو حجاج سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اتنے بڑے بڑے جنگل باقی ہیں کہ ان کے طے کرنے کے لئے اونٹوں کی گردنیں تھک جائیں البتہ صدقہ دینے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ عبداللہ بن مبارک لوگوں کے سامنے کہتے تھے چھوڑ دو روایت کرنا عمرو بن ثابت سے کیوں کہ وہ برا کہتا تھا اگلے بزرگوں کو
حضرت امام عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے تھے: اسناد دین کا حصہ ہے، اگر اسناد نہ ہوتی تو جو انسان جو کچھ چاہتا کہہ دیتا۔ اور فرماتے تھے: کہ ہمارے اور لوگوں (راویوں) کے درمیان قوائم (پاؤں یا ستون) ہیں۔ ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ طالقانی ؒبیان کرتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا: اے ابو عبدالرحمٰن! یہ حدیث کیسی ہے؟ یہ نیکی در نیکی ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو، اور اپنے روزوں کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزے رکھو۔ تو امام عبداللہ ؒ نے پوچھا: اے ابو اسحاق! یہ حدیث کون بیان کرتا ہے؟ میں نے انھیں کہا: یہ شہاب بن خراشؒ کی حدیث ہے۔ اس نے کہا: وہ ثقہ (قابلِ اعتماد) راوی ہے، وہ کسی سے بیان کرتا ہے؟ میں نے کہا: حجاج بن دینارؒ سے۔ انھوں نے کہا: وہ بھی قابلِ اعتماد ہے، اس نے یہ حدیث کس سے بیان کی ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ بن مبارک ؒ نے کہا: اے ابو اسحاق! حجاج بن دینارؒ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اتنے بڑے بیاباں (صحرا) ہیں، جن میں سواریوں کی گردنیں ٹوٹ جاتی ہیں، مگر صدقہ کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سب لوگوں کے سامنے علی الاعلان فرماتے تھے: عمرو بن ثابت کی حدیث قبول نہ کرو، کیونکہ وہ سلف صالحین کو گالیاں دیتا اور برا بھلا کہتا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18487 و 18923 و 18923 و 18924 و 18925)» ‏‏‏‏
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 32  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس طرح کوئی حیوان پاؤں کے بغیر نہیں چل سکتا،
یا کوئی گھر ستون کے بغیر نہیں ٹھہر سکتا،
اس طرح کوئی روایت سند کے بغیر قبول نہیں ہوسکتی۔
اگر سند ملحوظ نہ ہوتو انسان جو چاہتا بیان کر دیتا،
اور اس کی تحقیق تفتیش نہ ہو سکتی۔
اب سند کی صورت میں ہر حدیث کی جانچ پڑتال ہوسکتی ہے،
اور اس کی صحت وضعیف کوجانا جا سکتا ہے۔
فائدہ:
حجاج بن دینارؒ تبع تابعی ہیں،
تو اس کے اور آپ ﷺ کے درمیان ایک طویل زمانہ ہے،
اور کم از کم تابعی اورصحابی کا واسطہ چھوٹا ہوا ہے،
معلوم نہیں وہ تابعی کسی صحابی سے روایت بیان کر تا ہے،
یا کسی اورتابعی سے،
اور معلوم نہیں صحابی سے نچلے راوی ثقہ ہیں یا غیر ثقہ،
اس لیے اس کو حدیث کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
ہاں،
ماں باپ کو ثواب پہنچانے کےلیے صدقہ وخیرات کرنا،
احادیث کی بنا پر بالاتفاق جائز ہے۔
نماز،
روزہ اوردوسری بدنی عبادتوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
فائدہ:
عمرہ بن ثابت شیعہ رافضی تھا،
اس کے نزدیک آپ ﷺ کے بعد صرف چار انسان مسلمان رہ گئے تھے،
اور عشرہ مبشرہ اورسابقون اولون کے ایمان کا منکرمومن نہیں ہو سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 32