صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ ‏‏
باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 33
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ صَاحِبُ بُهَيَّةَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ، فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ، أَنْ تُسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ، فَلَا يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، وَلَا فَرَجٌ أَوْ عِلْمٌ، وَلَا مَخْرَجٌ، فَقَالَ لَهُ الْقَاسِمُ: وَعَمَّ ذَاكَ؟ قَالَ: لِأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَيْ هُدًى ابْنُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَر قَالَ: يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ: أَقْبَحُ مِنْ ذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ، عَنِ اللَّهِ، أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ آخُذَ، عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ، قَالَ: فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ
۔ ابو نضر ہاشم بن قاسم نے حدیث بیان کی، کہا: ہم نے بہیہ کے مولیٰ ابو عقیل (یحییٰ بن متوکل) نے حدیث بیان کی، کہا: میں قاسم بن عبید اللہ (بن عبد اللہ بن بن عمر جن کی والدہ ام عبد اللہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھیں) اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ یحییٰ نے قاسم بن عبید اللہ سے کہا: جناب ابو محمد! آپ جیسی شخصیت کے لیے یہ عیب ہے، بہت بڑی بات ہے کہ آپ سے اس دین کے کسی معاملے کے بارے میں (کچھ) پوچھا جائے اور آپ کے پاس اس کے حوالے سے نہ علم ہو نہ کوئی حل یا (یہ الفاظ کہے) نہ علم ہو نہ نکلنے کی کوئی راہ۔ تو قاسم نے ان سے کہا: کس وجہ سے؟ (یحییٰ نے) کہا: کیونکہ آپ ہدایت کے دو اماموں ابو بکر اور عمرؓ کے فرزند ہیں۔ کہا: قاسم اس سے کہنے لگے: جس شخص کو اللہ کی طرف سے عقل ملی ہو، اس کے نزدیک اس سے بھی بد تر بات یہ ہے کہ میں علم کے بغیر کچھ کہہ دوں یا اس سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو۔ (یہ سن کر یحییٰ) خاموش ہو گئے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
ابو عقیلؒ جو بہیہ نامی عورت کے شاگرد ہیں بیان کرتے ہیں: کہ میں قاسم بن عبید اللہؒ اور یحییٰ بن سعیدؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو یحییٰؒ نے قاسمؒ سے کہا: اے ابو محمد! آپ جیسے بلند شان انسان کے لیے انتہائی بری بات ہے کہ تم سے اس دین کے کسی مسئلہ (معاملہ) کے بارے میں دریافت کیا جائے اور آپ کے پاس اس کے بارے میں معلومات موجود نہ ہوں، اور آپ اس کو حل نہ کر سکیں، یا اس کے بارے میں علم اور نکلنے کی راہ نہ ہو۔ قاسم ؒ نے یحییٰؒ سے پوچھا یہ کیوں؟ اس نے کہا؟ کیونکہ آپ ہدایت و رہنمائی کے دو ائمہ ابو بکرؓ اور عمرؓ کے بیٹے ہیں۔ قاسم ؒ جواب دیتے ہیں: جو اللہ کے دین کی عقل و دانش رکھتا ہے، اس کے نزدیک اس سے زیادہ قبیح اور بری بات یہ ہے، کہ میں بلا سند و حجّت (بلا علم) بات کہوں (جواب دوں) یا غیرثقہ ناقابلِ اعتبار آدمی سےروایت لوں۔ تو یحییٰ خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم كما في ((التحفة)) برقم (18487 و 18924 و 18925)» ‏‏‏‏
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 33  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت قاسمؒ،
حضرت ابوبکرؓ کے نواسے ہیں،
کیونکہ قاسمؒ کی ماں،
قاسم بن محمد بن ابی بکر کی بیٹی ام عبداللہ ؒ ہیں۔
اور قاسمؒ،
حضرت عمرؓ کے پوتے ہیں،
کیونکہ وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عمرؒ کے بیٹے ہیں،
اس طرح ددھیال اورننھیال دونوں کے لحاظ سے نجیب الطرفین ہیں۔
اس لیے انہوں نے جواب دیا:
علم کا اعتراف،
تو علم ہے کہ اپنی حیثیت ومقام کا پتہ ہے،
اور ادعائے علم بلاعلم،
جہالت ہے،
کہ اپنی حیثیت اور مقام سے ناواقفیت ہے،
اس لیے عدم علم کی صورت میں جواب نہ دینا،
قصور علم کا اعتراف کرنا برا نہیں ہے،
لیکن بلا سند وحجت جواب دینا،
اور ضعیف لوگوں پر اعتماد کرنا یہ نہایت قبیح اور برا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 33