صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ -- مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ ‏‏
باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 77
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِي، قَالَ: سَمِعْتُ شَبَابَةَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ الْقُدُّوسِ يُحَدِّثُنَا، فَيَقُولُ: سُوَيْدُ بْنُ عَقَلَةَ: قَالَ شَبَابَةُ: وَسَمِعْتُ عَبْدَ الْقُدُّوسِ، يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ يُتَّخَذَ الرَّوْحُ عَرْضًا، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَيُّ شَيْءٍ هَذَا! قَالَ: يَعْنِي تُتَّخَذُ كُوَّةٌ فِي حَائِطٍ، لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ الرَّوْحُ، قَال مُسْلِمٌ: وسَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، يَقُولُ لِرَجُلٍ بَعْدَ مَا جَلَسَ مَهْدِيُّ بْنُ هِلَالٍ بِأَيَّامٍ: مَا هَذِهِ الْعَيْنُ الْمَالِحَةُ الَّتِي نَبَعَتْ قِبَلَكُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا إِسْمَاعِيل،
حسن حلوانی نے بیان کیا، کہا: میں نے شبابہ سے سنا (کہا: عبد القدوس ہمارے سامنے حدیث بیان کرتا تھا اور کہتا تھا: سوید بن عقلہ) شبابہ نے کہا: میں نے بعد القدوس سے سنا، کہتا تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رَوح کو عَرض بنانے سے منع فرمایا ہے (کہا) اس سے کہا گیا: اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس نے کہا: مطلب یہ ہے کہ دیوار میں سوراخ رکھا جائے تاکہ اس میں ہوا داخل ہو۔ (امام) مسلم نے کہا: میں نے عبید اللہ بن عمر قواریری سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے حماد بن زید سے سنا، وہ (مہدی بن ہلال کے علمی مجلس منعقد کرنے سے چند دن بعد) ایک آدمی سے کہہ رہے تھے: یہ نمکین چشمہ کیا ہے جو آپ کی طرف سے پھوٹا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اے ابواسماعیل! (آپ کی بات ٹھیک ہے
شبابہؒ کہتے ہیں: عبدالقدوس ہمیں حدیث سناتا اور راوی کا نام سوید بن عقلہ لیتا، اور متن یوں سناتا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روح کو عرض بنانے سے منع فرمایا۔ اس سے پوچھا گیا: کہ یہ کیا ہوا؟ یعنی: اس کا مطلب کیا ہے؟ تو اس نے کہا: ہوا کے داخل ہونے کے لیے دیوار میں سوراخ یا کھڑکی رکھنا منع فرمایا۔ عبید اللہ بن عمیر قواریریؒ کہتے ہیں، میں نے سنا حماد بن زیدؒ کسی آدمی کو کہہ رہے تھے، جب کہ وہ شخص مہدی بن ہلال کے پاس چند روز بیٹھ چکا تھا: یہ تمھاری طرف پھوٹنے والا نمکین چشمہ کیسا ہے؟ اس نے کہا: ہاں اے ابو اسماعیل! (یہ حماد بن زیدؒ کی کنیت ہے) وہ ایسا ہی ہے۔ یعنی واقعی ضعیف ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18589 و 18798)» ‏‏‏‏
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 77  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عبدالقدوس نے سند اور متن دونوں میں غلطی کی ہے۔
راوی کا نام عقلہ نہیں ہے،
بلکہ غفلہ ہے،
یعنی عین کی جگہ غین ہے اور قاف کی جگہ فاء ہے۔
متن میں،
روح ہے یعنی واء پر پیش ہے،
اور اس نے زبر پڑھا،
اور غرض (نشانہ)
کو عرض بنا دیا،
حدیث کا معنی یہ ہے:
جاندار کو باندھ کر نشانہ بنا کر مارنے سے منع فرمایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 77