مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ -- 0
1049. حَدِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
0
حدیث نمبر: 23282
حَدَّثَنَا بهْزٌ ، وَأَبو النَّضْرِ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ هُوَ ابنُ هِلَالٍ ، قَالَ أَبو النَّضْرِ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ يَعْنِي ابنَ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بنُ عَاصِمٍ اللَّيْثِيُّ ، قَالَ: أَتَيْتُ الْيَشْكُرِيَّ فِي رَهْطٍ مِنْ بنِي لَيْثٍ، قَالَ: فَقَالَ: قُلْنَا: بنُو لَيْثٍ، قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ وَسَأَلَنَا، ثم قلنا: أتيناك نسألك عَنْ حَدِيثِ حُذَيْفَةَ، قَالَ: أَقْبلْنَا مَعَ أَبي مُوسَى قَافِلِينَ وَغَلَتْ الدَّوَاب بالْكُوفَةِ، فَاسْتَأْذَنْتُ أَنَا وَصَاحِب لِي أَبا مُوسَى فَأَذِنَ لَنَا، فَقَدِمْنَا الْكُوفَةَ باكِرًا مِنَ النَّهَارِ، فَقُلْتُ لِصَاحِبي: إِنِّي دَاخِلٌ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا قَامَتْ السُّوقُ خَرَجْتُ إِلَيْكَ، قَالَ: فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا فِيهِ حَلْقَةٌ كَأَنَّمَا قُطِعَتْ رُءُوسُهُمْ يَسْتَمِعُونَ إِلَى حَدِيثِ رَجُلٍ، قَالَ: فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَامَ إِلَى جَنْبي، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبصْرِيٌّ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ لَوْ كُنْتَ كُوفِيًّا لَمْ تَسْأَلْ عَنْ هَذَا، هَذَا حُذَيْفَةُ بنُ الْيَمَانِ ، قَالَ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ وَأَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، وَعَرَفْتُ أَنَّ الْخَيْرَ لَنْ يَسْبقَنِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ:" يَا حُذَيْفَةُ، تَعَلَّمْ كِتَاب اللَّهِ، وَاتَّبعْ مَا فِيهِ"، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ:" فتنهٌ وشرٌّ"، قال: قلت: يا رَسُولَ الله، أَبعْدَ هَذَا الشَرِّ خَيْرِ؟ قال:" يا حذيفة، تَعَلَّم كِتَاب الله، وَاتَّبعْ مَا فِيهِ"، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ الله، أَبعْدَ هَذَا الشَرٌّ خَيْرٌّ؟ قَالَ:" هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ، وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْهُدْنَةُ عَلَى دَخَنٍ مَا هِيَ؟ قَالَ:" لَا تَرْجِعُ قُلُوب أَقْوَامٍ عَلَى الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ:" يَا حذيفة، تَعَلَّم كِتَاب الله، واَتَّبعْ مَا فِيهِ"، ثَلاَثَ مَرَّات، قَال: قِلْتِِِِِِ: يَا رسول الله، أبعد هذا الخير شر؟ قال:" فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبوَاب النَّارِ، وَأَنْتَ أَنْ تَمُوتَ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبعَ أَحَدًا مِنْهُمْ" .
نصر بن عاصم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بنولیث کے ایک گروہ کے ساتھ یشکری کے پاس آیا انہوں نے پوچھا کون لوگ ہیں؟ ہم نے بتایا بنولیث ہیں ہم نے ان کی خیریت دریافت کی اور انہوں نے ہماری خیریت معلوم کی پھر ہم نے کہا کہ ہم آپ کے پاس حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث معلوم کرنے کے لئے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آرہے تھے کوفہ میں جانور بہت مہنگے ہوگئے تھے میں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ سے اجازت لی انہوں نے ہمیں اجازت دے دی چناچہ ہم صبح سویرے کوفہ پہنچ گئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ میں مسجد کے اندر ہوں جب بازار کھل جائے گا تو میں آپ کے پاس آجاؤں گا۔ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں ایک حلقہ لگا ہوا تھا یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سر کاٹ دیئے گئے ہیں وہ ایک آدمی کی حدیث کو بڑی توجہ سے سن رہے تھے میں ان کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اسی دوران ایک اور آدمی آیا اور میرے پہلو میں کھڑا ہوگیا میں نے اس سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اس نے مجھ سے پوچھا کیا آپ بصرہ کے رہنے والے ہیں میں نے کہا جی ہاں! اس نے کہا کہ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ اگر آپ کوفی ہوتے تو ان صاحب کے متعلق سوال نہ کرتے یہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں ان کے قریب گیا تو انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں شر کے متعلق کیونکہ میں جانتا تھا کہ خیر مجھے چھوڑ کر آگے نہیں جاسکتی ایک دن میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حذیفہ! کتاب اللہ کو سیکھو اور اس کے احکام کی پیروی کرو (تین مرتبہ فرمایا میں نے پھر اپنا سوال دہرایا نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتنہ اور شر ہوگا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا حذیفہ! کتاب اللہ کو سیکھو اور اس کے احکام کی پر وی کرو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا اس خیر کے بعد شر ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دھوئیں پر صلح قائم ہوگی اور گندگی پر اتفاق ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! دھوئیں پر صلح قائم ہونے سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ اس صلح پر دل سے راضی نہیں ہوں گے۔ پھر میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وہی سوال جواب ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسا فتنہ آئے گا جو اندھا بہرا کر دے گا اس پر جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے لوگ مقرر ہوں گے اے حذیفہ! اگر تم اس حال میں مرو کہ تم نے کسی درخت کے تنے کو اپنے دانتوں تلے دبا رکھا ہو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم ان میں سے کسی کی پیروی کرو۔