مسند احمد
مسند النساء -- 0
1171. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 25097
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: خَرَجْتُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ. قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَئِيدَ الْأَرْضِ ورائي يعني حِسَّ الأرض، قَالَتْ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَهُ ابْنُ أَخِيهِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ، يَحْمِلُ مِجَنَّهُ. قَالَتْ: فَجَلَسْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ مِنْ حَدِيدٍ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْهَا أَطْرَافُهُ، فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أَطْرَافِ سَعْدٍ. قَالَتْ: وَكَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ. قَالَتْ: فَمَرَّ وَهُوَ يَرْتَجِزُ وَيَقُولُ: لَيْتَ قَلِيلًا يُدْرِكُ الْهَيْجَا حَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ قَالَتْ: فَقُمْتُ، فَاقْتَحَمْتُ حَدِيقَةً، فَإِذَا فِيهَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَإِذَا فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَيْهِ تَسْبِغَةٌ لَهُ يَعْنِي مِغْفَرًا، فَقَالَ عُمَرُ: مَا جَاءَ بِكِ؟! لَعَمْرِي وَاللَّهِ إِنَّكِ لَجَرِيئَةٌ، وَمَا يُؤْمِنُكِ أَنْ يَكُونَ بَلَاءٌ، أَوْ يَكُونَ تَحَوُّزٌ؟ قَالَتْ: فَمَا زَالَ يَلُومُنِي حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِي سَاعَتَئِذٍ، فَدَخَلْتُ فِيهَا. قَالَتْ: فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَةَ عَنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، وَيْحَكَ!، إِنَّكَ قَدْ أَكْثَرْتَ مُنْذُ الْيَوْمَ، وَأَيْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟! قَالَتْ: وَيَرْمِي سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ قُرَيْشٍ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْعَرِقَةِ بِسَهْمٍ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَةِ، فَأَصَابَ أَكْحَلَهُ، فَقَطَعَهُ، فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ قُرَيْظَةَ. قَالَتْ: وَكَانُوا حُلَفَاءَهُ وَمَوَالِيَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. قَالَتْ: فَرَقَأ كَلْمُهُ، وَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّيحَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، فَكَفَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ، وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا، فَلَحِقَ أَبُو سُفْيَانَ وَمَنْ مَعَهُ بِتِهَامَةَ، وَلَحِقَ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَهُ بِنَجْدٍ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ فَتَحَصَّنُوا فِي صَيَاصِيهِمْ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَضَعَ السِّلَاحَ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَضُرِبَتْ عَلَى سَعْدٍ فِي الْمَسْجِدِ. قَالَتْ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَإِنَّ عَلَى ثَنَايَاهُ لَنَقْعُ الْغُبَارِ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ؟ وَاللَّهِ مَا وَضَعَتْ الْمَلَائِكَةُ بَعْدُ السِّلَاحَ، اخْرُجْ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَقَاتِلْهُمْ. قَالَتْ: فَلَبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأْمَتَهُ، وَأَذَّنَ فِي النَّاسِ بِالرَّحِيلِ أَنْ يَخْرُجُوا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ عَلَى بَنِي غَنْمٍ، وَهُمْ جِيرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَهُ، فَقَالَ:" مَنْ مَرَّ بِكُمْ؟" قَالُوا: مَرَّ بِنَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ، وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ تُشْبِهُ لِحْيَتُهُ وَسِنُّهُ وَجْهُهُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام. فَقَالَتْ: فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَاصَرَهُمْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُهُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَاءُ، قِيلَ لَهُمْ: انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ، أَنَّهُ الذَّبْحُ. قَالُوا: نَنْزِلُ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ"، فَنَزَلُوا، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأُتِيَ بِهِ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ، قَدْ حُمِلَ عَلَيْهِ، وَحَفَّ بِهِ قَوْمُهُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَمْرٍو، حُلَفَاؤُكَ وَمَوَالِيكَ وَأَهْلُ النِّكَايَةِ وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ. قَالَتْ: لَا يُرْجِعُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْ دُورِهِمْ، الْتَفَتَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: قَدْ آنَ لِي أَنْ لا أُبَالِيَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ. قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمَّا طَلَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَأَنْزَلُوهُ". فَقَالَ عُمَرُ: سَيِّدُنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: أَنْزِلُوهُ، فَأَنْزَلُوهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْكُمْ فِيهِمْ"، قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ، أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ، وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ، وَتُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ وَقَالَ يَزِيدُ بِبَغْدَادَ: وَيُقْسَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُكْمِ رَسُولِهِ". قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَبْقَيْتَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْئًا، فَأَبْقِنِي لَهَا، وَإِنْ كُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ، فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ. قَالَتْ: فَانْفَجَرَ كَلْمُهُ، وَكَانَ قَدْ بَرِئَ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلَى قُبَّتِهِ الَّتِي ضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَضَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَعْرِفُ بُكَاءَ عُمَرَ مِنْ بُكَاءِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَنَا فِي حُجْرَتِي، وَكَانُوا كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سورة الفتح آية 29. قَالَ عَلْقَمَةُ: قُلْتُ: أَيْ أُمَّهْ، فَكَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَتْ: كَانَتْ عَيْنُهُ لَا تَدْمَعُ عَلَى أَحَدٍ، وَلَكِنَّهُ كَانَ إِذَا وَجِدَ، فَإِنَّمَا هُوَ آخِذٌ بِلِحْيَتِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر لوگوں کے نشانات قدم کی پیروی کرتے ہوئے نکلی، میں نے اپنے پیچھے زمین کے چیرنے کی آواز سنی، میں نے پلٹ کر دیکھا تو اچانک میرے سامنے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آگئے، ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس تھا جو ڈھال اٹھائے ہوئے تھا، میں زمین پر بیٹھ گئی، حضرت سعد رضی اللہ عنہ وہاں سے گذر گئے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اس سے ان کے اعضاء باہر نکلے ہوئے تھے جن کے متعلق مجھے نقصان کا اندیشہ ہونے لگا، کیونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں عظیم تر اور طویل تر تھے، وہ میرے قریب سے گذرتے ہوئے یہ رجزیہ شعر پڑھ رہے تھے تھوڑی دیر انتطار کرو، لڑائی اپنا بوجھ اٹھائے گی اور وہ موت کتنی اچھی ہے جو وقت مقررہ پر آجائے۔ اس کے بعد میں وہاں سے اٹھی اور ایک باغ میں گھس گئی، دیکھا کہ وہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہے، جس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور ان میں سے ایک آدمی کے سر پر خود بھی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تم کیوں آئی ہو؟ واللہ تم بڑی جری ہو، تم اس چیز سے کیسے بےخطر ہوگئی ہو کہ کوئی مصیبت آجائے یا کوئی تمہیں پکڑ کرلے جائے؟ وہ مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے حتیٰ کہ میں تمنا کرنے لگی کہ اس وقت زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں، اسی دوران اس آدمی نے اپنے چہرے سے خود ہٹایا تو وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے، وہ کہنے لگے ارے عمر! آج تو تم نے بہت ہی حد کردی، اللہ کے علاوہ کہاں جانا ہے اور کہاں پکڑ کر جمع ہونا ہے۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر مشرکین قریش میں سے ایک آدمی " جس کا نام ابن عرقہ تھا " تیر برسانے لگا اور کہنے لگا کہ یہ نشانہ روکو کہ میں ابن عرقہ ہوں، وہ تیر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں لگا اور اسے کاٹ گیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دیجئے گا جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کے معاملے میں ٹھندی نہ ہوجائیں، بنو قریظہ کے لوگ زمانہ جاہلیت میں ان کے حلیف اور آزاد کردہ غلام تھے، بہر حال! ان کا زخم بھر گیا اور اللہ نے مشرکین پر آندھی مسلط کردی اور لڑائی سے مسلمانوں کی کفایت فرمالی اور اللہ طاقتور غالب ہے۔ اس طرح ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ واپس جلے گئے، عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد چلے گئے، بنو قریظہ واپس اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس آگئے اور اسلحہ اتار کر حکم دیا کہ چمڑے کا ایک خیمہ مسجد میں سعد کے لئے لگا دیا جائے، اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے، غبار جن کے دانتوں پر اپنے آثار دکھا رہا تھا، وہ کہنے لگے کہ کیا آپ نے اسلحہ اتار کر رکھ دیا؟ واللہ ملائکہ نے تو ابھی تک اپنا اسلحہ نہیں اتارا، بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوجائے اور ان سے قتال کیجئے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ پہنی اور لوگوں میں کوچ کی منادی کرادی اور روانہ ہوگئے۔ راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بنوغنم پر ہوا جو کہ مسجد نبوی کے آس پاس رہنے والے پڑوسی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابھی تمہارے پاس سے کوئی گذر کرگیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی گذر کرگئے ہیں، دراصل حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی، دانت اور چہرہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے مشابہہ تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے قریب پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا اور پچیس دن تک محاصرہ جاری رکھا، جب یہ محاصرہ سخت ہوا اور ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہونے لگا تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دو، انہوں نے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تو انہوں نے اشارے سے بتایا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم سعد بن معاذ کے فیصلے پر ہتھیار ڈالتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات مان لی انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے لایا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان پڑا ہوا تھا، ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں گھیر رکھا تھا اور وہ ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابو عمر! یہ تمہارے ہی حلیف، آزاد کردہ غلام اور کمزور لوگ ہیں اور وہ جنہیں تم جانتے ہو، لیکن وہ انہیں کچھ جواب دے رہے تھے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کر رہے تھے، جب وہ ان کے گھروں کے قریب پہنچ گئے تو اپنے قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اب وہ وقت آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پرواہ نہ کروں، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ انہیں سواری سے اتارو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ک