مسند احمد
مسند النساء -- 0
1171. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 25769
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، وَيَحْيَى ، قَالَا: لَمَّا هَلَكَتْ خَدِيجَةُ جَاءَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَزَوَّجُ؟ قَالَ:" مَنْ؟" قَالَتْ: إِنْ شِئْتَ بِكْرًا، وَإِنْ شِئْتَ ثَيِّبًا، قَالَ:" فَمَنْ الْبِكْرُ؟" قَالَتْ: ابْنَةُ أَحَبِّ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْكَ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ:" وَمَنْ الثَّيِّبُ؟" قَالَتْ: سَوْدَةُ ابْنَةُ زَمْعَةَ، قَدْ آمَنَتْ بِكَ وَاتَّبَعَتْكَ عَلَى مَا تَقُولُ، قَالَ: " فَاذْهَبِي فَاذْكُرِيهِمَا عَلَيَّ". فَدَخَلَتْ بَيْتَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: يَا أُمَّ رُومَانَ، مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ مِنَ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ؟ قَالَتْ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَيْهِ عَائِشَةَ، قَالَتْ: انْتَظِرِي أَبَا بَكْرٍ حَتَّى يَأْتِيَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا بَكْرٍ، مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عز وجل عَلَيْكُمْ مِنَ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ؟ قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَيْهِ عَائِشَةَ. قَالَ: وَهَلْ تَصْلُحُ لَهُ، إِنَّمَا هِيَ ابْنَةُ أَخِيهِ، فَرَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ ذَلِكَ. قَالَ:" ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَقُولِي لَهُ: أَنَا أَخُوكَ وَأَنْتَ أَخِي فِي الْإِسْلَامِ، وَابْنَتُكَ تَصْلُحُ لِي". فَرَجَعَتْ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: انْتَظِرِي، وَخَرَجَ. قَالَتْ أُمُّ رُومَانَ: إِنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِيٍّ قَدْ كَانَ ذَكَرَهَا عَلَى ابْنِهِ، فَوَاللَّهِ مَا وَعَدَ وْعِدًا قَطُّ فَأَخْلَفَهُ لِأَبِي بَكْرٍ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ؟ وَعِنْدَهُ امْرَأَتُهُ أُمُّ الْفَتَى، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ، لَعَلَّكَ مُصْبٍ صَاحِبَنَا مُدْخِلُهُ فِي دِينِكَ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ إِنْ تَزَوَّجَ إِلَيْكَ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ، لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِيٍّ آقَوْلَ هَذِهِ، تَقُولُ: قَالَ: إِنَّهَا تَقُولُ ذَلِكَ، فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، وَقَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ فِي نَفْسِهِ مِنْ عِدَتِهِ الَّتِي وَعَدَهُ، فَرَجَعَ، فَقَالَ لِخَوْلَةَ: ادْعِي لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَتْهُ، فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ، وَعَائِشَةُ يَوْمَئِذٍ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ. ثُمَّ خَرَجَتْ، فَدَخَلَتْ عَلَى سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ، فَقَالَتْ: مَاذَا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكِ مِنَ الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ؟ قَالَتْ: مَا ذَاكَ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُكِ عَلَيْهِ. قَالَتْ: وَدِدْتُ، ادْخُلِي إِلَى أَبِي، فَاذْكُرِي ذَاكَ لَهُ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ أَدْرَكَهُ السِّنُّ، قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ الْحَجِّ، فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ، فَحَيَّتْهُ بِتَحِيَّةِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ: خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ، قَالَ: فَمَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَرْسَلَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْطُبُ عَلَيْهِ سَوْدَةَ، قَالَ: كُفْءٌ كَرِيمٌ، مَاذَا تَقُولُ صَاحِبَتُكِ؟ قَالَتْ: تُحِبُّ ذَاكَ، قَالَ: ادْعُهَا لِي، فَدَعَتُهَا، قَالَ: أَيْ بُنَيَّةُ، إِنَّ هَذِهِ تَزْعُمْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَدْ أَرْسَلَ يَخْطُبُكِ، وَهُوَ كُفْءٌ كَرِيمٌ، أَتُحِبِّينَ أَنْ أُزَوِّجَكِ بِهِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ادْعِيهِ لِي، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ، فَجَاءَهَا أَخُوهَا عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ مِنَ الْحَجِّ، فَجَعَلَ يَحْثِي فِي رَأْسِهِ التُّرَابَ، فَقَالَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ لَعَمْرُكَ، إِنِّي لَسَفِيهٌ يَوْمَ أَحْثِي فِي رَأْسِي التُّرَابَ أَنْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ مْنِ الْخَزْرَجِ فِي السُّنْحِ، قَالَتْ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ بَيْتَنَا، وَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَنِسَاءٌ، فَجَاءَتْنِي أُمِّي، وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ بَيْنَ عَذْقَيْنِ تَرْجَحُ بِي، فَأَنْزَلَتْنِي مِنَ الْأُرْجُوحَةِ، وَلِي جُمَيْمَةٌ، فَفَرَقَتْهَا، وَمَسَحَتْ وَجْهِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ تَقُودُنِي حَتَّى وَقَفَتْ بِي عِنْدَ الْبَابِ، وَإِنِّي لَأَنْهَجُ، حَتَّى سَكَنَ مِنْ نَفْسِي، ثُمَّ دَخَلَتْ بِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى سَرِيرٍ فِي بَيْتِنَا، وَعِنْدَهُ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَأَجْلَسَتْنِي فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: هَؤُلَاءِ أَهْلُكِ، فَبَارَكَ اللَّهُ لَكِ فِيهِمْ، وَبَارَكَ لَهُمْ فِيكِ، فَوَثَبَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ، فَخَرَجُوا وَبَنَى بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِنَا، مَا نُحِرَتْ عَلَيَّ جَزُورٌ، وَلَا ذُبِحَتْ عَلَيَّ شَاةٌ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيْنَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ بِجَفْنَةٍ كَانَ يُرْسِلُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَارَ إِلَى نِسَائِهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ" .
ابو سلمہ رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئیں تو خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ " جو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں " نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! آپ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کس سے؟ انہوں نے عرض کیا اگر آپ چاہیں تو کنواری لڑکی بھی موجود ہے اور شوہر دیدہ بھی موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کنواری لڑکی کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی مخلوق میں آپ کو سب سے محبوب آدمی کی بیٹی یعنی عائشہ بنت ابی بکر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا شوہر دیدہ کون ہے، انہوں نے عرض کیا سودہ بنت زمعہ، جو آپ پر ایمان رکھتی ہے اور آپ کی شریعت کی پیروی کرتی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور دونوں کے یہاں میرا تذکرہ کردو۔ چنانچہ حضرت خولہ رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر کے گھر پہنچیں اور کہنے لگیں اے ام رومان! اللہ تمہارے گھر میں کتنی بڑی خیرو برکت داخل کرنے والا ہے، ام رومان نے پوچھا وہ کیسے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اپنے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے، ام رومان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوبکر کے آنے کا انتظار کرلو، تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، حضرت خولہ رضی اللہ عنہ اور ان کے درمیان بھی یہی سوال جواب ہوتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنا جائز ہے؟ کیونکہ وہ تو ان کی بھتیجی ہے، خولہ رضی اللہ عنہ واپس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں جا کر کہہ دو کہ میں تمہارا اور تم میرے اسلامی بھائی ہو، اس لئے تمہاری بیٹی سے میرے لئے نکاح کرنا جائز ہے، انہوں نے واپس آکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ جواب بتادیا، انہوں نے فرمایا تھوڑی دیر انتظار کرو اور خود باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ام رومان رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا تھا اور واللہ ابوبکر نے کبھی بھی وعدہ کر کے وعدہ خلافی نہیں کی تھی، لہذا ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے مطعم بن عدی کے پاس گئے، اس کے پاس اس کی بیوی ام الفتی بھی موجود تھی، وہ کہنے لگی، اے ابن ابی قخافہ! اگر ہم نے اپنے بیٹے کا نکاح آپ کے یہاں کردیا تو ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے بیٹے کو بھی دین میں داخل کرلیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مطعم بن عدی سے پوچھا کہ کیا تم بھی یہی رائے رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ اس کی بات صحیح ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل آئے اور ان کے ذہن پر وعدہ خلافی کا جو بوجھ تھا وہ اللہ نے اس طرح دور کردیا اور انہوں نے واپس آکر خولہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے یہاں بلا کرلے آؤ، خولہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے آئیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال تھی۔ اس کے بعد خولہ رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ اللہ تمہارے گھر میں کتنی بڑی خیروبرکت داخل کرنے والا ہے، سودہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کیسے؟ خولہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس اپنی جانب سے پیغام نکاح دیکر بھیجا ہے، انہوں نے کہا بہتر ہے کہ تم میرے والد کے پاس جا کر ان سے اس بات کا ذکر کرو، سودہ کے والد بہت بوڑھے ہوچکے تھے اور ان کی عمر اتنی زیادہ ہوچکی تھی کہ وہ حج نہیں کرسکتے تھے، خولہ ان کے پاس گئیں اور زمانہ جاہلیت کے طریقے کے مطابق انہیں اداب کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ بتایا کہ میں خولہ بنت حکیم ہوں، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ خولہ نے کہا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ نے سودہ سے اپنا پیغام نکاح بھیجا ہے، زمعہ نے کہا کہ وہ تو بہترین جوڑ ہے، تمہاری سہیلی کی کیا رائے ہے؟ خولہ نے کہا کہ اسے یہ رشتہ پسند ہے، زمعہ نے کہا کہ اسے میرے پاس بلاؤ، خولہ نے انہیں بلایا تو زمعہ نے ان سے پوچھا پیاری بیٹی! ان کا کہنا ہے کہ محمد بن عبداللہ نے اسے تم سے اپنا پیغام نکاح دے کر بھیجا ہے اور وہ بہترین جوڑ ہے تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ان سے تمہارا نکاح کر دوں؟ سودہ رضی اللہ عنہ نے حامی بھر لی، زمعہ نے مجھ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پاس بلا کرلے آؤ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور زمعہ نے ان سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کا نکاح کردیا، چند دنوں کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کا بھائی عبد بن زمعہ حج سے واپس آیا، اسے اس رشتے کا علم ہوا تو وہ اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کہتے