صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
74. باب الإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
حدیث نمبر: 413
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً، فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ لَأَمَهُ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ، فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ، قَالَ أَنَسٌ: وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ "
(سلیمان بن مغیرہ کے بجائے) حماد بن سلمہ نے ثابت کے واسطے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل رضی اللہ عنہ آئے جبکہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، انہوں نے آپ کو پکڑا، نیچے لٹایا، آپ کا سینہ چاک کیا اور دل نکال لیا، پھر اس سےایک لوتھڑا نکالا اور کہا: یہ آپ (کے دل میں) سے شیطان کا حصہ تھا، پھر اس (دل) کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اس کو جوڑا اور اس کی جگہ پر لوٹا دیا، بچے دوڑتے ہوئے آپ کی والدہ، یعنی آپ کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (یہ سن کر لوگ دوڑے) تو آپ کے سامنے سےآتے ہوئے پایا، آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس سلائی کا نشان آپ کے سینے پر دیکھا کرتا تھا۔ (یہ بچپن کا شق صدر ہے۔)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ؑ اس وقت آئے جب کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر گرایا اور آپ کا سینہ چاک کر کے دل نکال لیا، پھر اس سے جما ہوا خون نکالا اور کہا: یہ آپ میں شیطان کا حصہ تھا۔ پھر اس کو سونے کے تھال (طشت) میں رکھ کر زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اس کو (دل کو) جوڑا اور اس کی جگہ پر لوٹا دیا، اور بچے دوڑتے ہوئے آپ کی والدہ یعنی آپ کی انا (رضاعی ماں) کے پاس آئے اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیا گیا ہے (یہ سن کر لوگ آئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے سے ملے اور آپ کا رنگ (خوف یا گھبراہٹ کی بنا پر) بدل چکا ہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: میں اس سلائی کا نشان آپ کے سینہ پر دیکھا کرتا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (346)» ‏‏‏‏
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 413  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
لَأَمَ:
جمع کیا،
ملا دیا۔
(2)
ظِئْرَ:
دودھ پلانے والی۔
(3)
مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ:
رنگ کا خوف و حزن کی بنا پر فق ہو جانا۔
(4)
مِخْيَط:
سوئی،
سینے کا آلہ۔
فوائد ومسائل:
بچپن میں شق صدر کا واقعہ اس وقت پیش آیا،
جبکہ آپ ﷺ کی عمر چار یا پانچ سال تھی،
اور آپ ﷺ اپنی دایہ مائی حلیمہ کے پاس بنو سعد ہی میں رہ رہے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 413