مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 7
حدیث نمبر: 7
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ الرَّصَاصِيُّ، ثنا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ رَجُلًا مِنْ حِمْيَرَ يُحَدِّثُ عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَوْسَطَ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ مَقَامِيَ هَذَا ثُمَّ بَكَي فَقَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ وَإِنَّهُمَا فِي النَّارِ، وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ عَبْدٌ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْعَافِيَةِ» قَالَ: «وَلَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا» . قَالَ: «وَلَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا» .
اوسط بن اسماعیل بجلی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: گزشتہ سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے، پھر وہ (یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) رونے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور تم پر جھوٹ سے بچنا لازم ہے، کیونکہ وہ گناہوں کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، کیونکہ کسی بھی بندے کو یقین کے بعد ایسی کوئی چیز نہیں دی گئی، جو عافیت سے زیادہ بہتر ہو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی: آپس میں لاتعلقی اختیار نہ کرو، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، ایک دوسرے پر غصہ نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی، بھائی بن کے رہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 121، صحیح ابن حبان: 5734، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1944، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10649، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3558، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3849، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5، 6، 11، 18»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:7  
اوسط بن اسماعیل بجلی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: گزشتہ سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے، پھر وہ (یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) رونے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور تم پر جھوٹ سے بچنا لازم ہے، کیونکہ وہ گناہوں کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، کیونکہ کسی بھی بندے کو یقین کے بعد ایسی کوئی چیز نہیں دی گئی، جو عافیت سے زیادہ بہتر ہو۔۔۔۔۔   (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر: 7]
فائدہ:
حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے۔
بعض اہم مواقع پر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے ایام میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امام بنا کر لوگوں کو جماعت کروانے کا حکم دیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ اللہ کے نبی! آپ انھیں حکم نہ دیں، وہ انتہائی نرم دل آدمی ہیں۔ [صحيح البخاري: 678، صحيح مسلم: 418]
اس حدیث میں تربیت انسان کے بعض اہم پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے مثلاً: نیکی اور سچائی کو لازم پکڑنا، اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ نیک انسان سچ بولے گا اور سچا انسان نیکیوں کی تلاش میں رہے گا۔ ان دونوں وصفوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو دوسرا وصف ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح جھوٹا انسان گناہ کرے گا، جھوٹ اور گناہ لازم وملزوم ہیں۔ جھوٹ بولنے والے سے کسی بھی گناہ کی توقع ممکن ہے، اس لیے سچ اور نیکی اختیار کرنے والا جنت کا مستحق ہوگا اور جھوٹ اور گناہ میں ملوث ہونے والا جہنم کا مستحق ٹھہرے گا، اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے محفوظ فرمائے، آمین۔
اسی طرح عافیت کو لازم پکڑنے کی تاکید کی گئی ہے، بغیر کسی شرعی عذر کے لوگوں سے سوال کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
افسوس کہ جس قدر عافیت کی اہمیت زیادہ تھی، اس قدر لوگوں نے اس کو چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت میں رہنے کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔
اس حدیث مبارکہ میں مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کرنے پر بھی توجہ دلائی گئی ہے، مثلاً: رشتہ داری کو توڑنا حرام ہے اور صلہ رحمی کرنا فرض ہے۔ کوئی آپ سے دوری اختیار کرنا چاہے، آپ پھر بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھیں، اصل یہی صلہ رحمی ہے، اور کسی سے قطع تعلقی کی حد تین دن ہے۔
اس میں حسد سے روکا گیا ہے، اس کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهـو تـمنى زوال النعمة عن صاحبها سواء كانت نعمة دين أو دنيا، قال الله تعالى: ام يحسدون الناس علىٰ ما آتاهم الله من فضله» [النساء: 54]
اور یہ (حسد) کسی صاحب نعمت سے زوال نعمت کی آرزو کرنے کا نام ہے، وہ نعمت دینی ہو یا دنیاوی۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:
کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں، اس نعمت پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سےعطا فرمائی ہے۔ [رياض الصالحين: قبل الحديث: 1569]
حسد کرنا حرام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ایک مشہور روایت بیان کی جاتی ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ [سنن ٱبي داود: 4903]
اس کی سند ابراہیم بن اسید کے دادا کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ البتہ دو آدمیوں پر حسد (رشک) کرنا درست ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر حسد (رشک) کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا (یعنی سے حفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائی) پس وہ اس کے ساتھ رات اور دن کے اوقات میں قیام کرتا ہے، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا، وہ اسے اللہ کی راہ میں رات اور دن کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔ [صحيح البخاري: 5025، صحيح مسلم: 815]
رشک میں کسی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ نعمت اس کے پاس بھی رہے اور اللہ تعالی مجھے بھی دے دے، کی تمنا کی جاتی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 7