مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا علی ابن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 49
حدیث نمبر: 49
49 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ بَعَثَنِي مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا، وَالزُّبَيْرُ، وَالْمِقْدَادُ فَقَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّي تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ بِهَا ظَعِينَةٌ مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَعَادَي بِنَا خَيْلُنَا حَتَّي أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِينَ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَي نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِمَّنْ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟» فَقَالَ حَاطِبٌ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانَ مَنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهَالِيهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَا كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ» فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَي أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: «اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ» قَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: وَنَزَلَتْ فِيهِ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ الْآيَةَ قَالَ سُفْيَانُ: فَلَا أَدْرِي أَذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ أَمْ قَوْلًا مِنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ
49- عبید اللہ بن ابورافع جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے وہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا: تم لوگ جاؤ اور خاخ(جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) کے باغ پہنچو وہاں ایک عورت ہوگی، جس کے پاس ایک خط ہوگا تم لوگ وہ اس سے لے لینا۔ (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم لوگ روانہ ہوئے۔ ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس باغ تک آئے، تو وہاں ایک عورت موجود تھی ہم نے کہا: تم خط نکالو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا تم خط نکالو ورنہ ہم تمہاری چادر اتار دیں گے تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے اس نکالا۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو اس میں تحریر تھا: یہ حاطب بن ابوبلتعہ کی طرف سے مکہ میں رہنے والے کچھ مشرکن کے لئے تھا جس میں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ کی طرف) کوچ کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: حاطب یہ کیا تھا؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے، میں ایک ایسا شخص ہوں جو قریش کے ساتھ مل کر رہ رہا ہوں لیکن میں ان کا حصہ نہیں ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو دیگر مہاجرین ہیں، ان کی وہاں رشتے دارایں ہیں، جن کی وجہ سے ان کے گھر والے اور ان کی زمینیں محفوظ ہیں۔ میں یہ چاہتا تھا، کیونکہ میرا قریش کے ساتھ کوئی نسبی تعلق نہیں ہے، تو میں ان پر کوئی احسن کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، میں کفر کرتے ہوئے، یا اپنے دین سے مرتد ہوتے ہوئے، یا اسلام قبول کرنے کے بعد کفر سے راضی ہوتے ہوئے، یہ عمل نہیں کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے تمہارے ساتھ سج بات کہی ہے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے آپ اجازت دیججئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بدر میں شریک ہوا ہے تمہیں کیا پتہ؟ شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے کہا: تم جو چاہو عمل کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں: اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔
سفیان کہتے ہیں: مجھے یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ روایت کا حصہ ہے یا عمرو بن دینار کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري 4890، 3007، ومسلم: 2494، وأخرجه مسنده الموصلي: 321/1-316، برقم: 394-398، وصحيح ابن حبان: 6499، 7119»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:49  
49- عبید اللہ بن ابورافع جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کاتب تھے وہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو بھیجا اور فرمایا: تم لوگ جاؤ اور خاخ(جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) کے باغ پہنچو وہاں ایک عورت ہوگی، جس کے پاس ایک خط ہوگا تم لوگ وہ اس سے لے لینا۔ (سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم لوگ روانہ ہوئے۔ ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس باغ تک آئے، تو وہاں ایک عورت موجود تھی ہم نے کہا: تم خط نکالو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا تم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:49]
فائده◄ اس واقعے سے سیدنا حاطب بن ٱبی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی سچ گوئی ثابت ہوتی ہے کہ ان سے اجتہادی غلطی سرزد ہوئی تھی تو انہوں نے اسے مکمل وضاحت اور صاف گوئی سے بیان کر دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہن کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقام عطا فرمایا ہے، اور تمام بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہن میں سے کوئی بھی منافق نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کا زبردست رد کرتے ہوئے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض روافض صحابہ کرام رضی اللہ عنہن پر اعتراض کرتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہن مرتد ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ اعتراض درست نہیں ہے۔
اس کے جواب میں شیخنا محدث ارشاد الحق اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں مگر یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے، بلکہ صحابی کی تعریف کو پیش نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہے، صحابی کی تعریف یہ ہے کہ جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ سلیم سے ملاقات کی ہو، اور وہ اسلام پر فوت ہوا ہو۔ (الاصابہ: 8/1 وغیرہ) اور جو کوئی اسلام سے مرتد ہو گیا، اسے صحابی شمار نہیں کیا جاتا، جیسے عبداللہ بن خطل جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر وہ بیت اللہ کے غلاف کے نیچے بھی چھپا ہوا ہو تو اسے قتل کر دو، چنانچہ اسے اس حالت میں قتل کر دیا گیا، یا جیسے عبداللہ بن جحش جو سیدنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا خاوند تھا۔ دونوں نے ہجرت حبشہ کی۔ حبشہ میں عبداللہ عیسائی ہو گیا۔ بعض وہ بھی تھے جومرتد ہوئے مگر پھر اسلام میں پلٹ آئے، وہ بھی صحابی شمار ہوتے ہیں، جیسے اشعث بن قیس، قرہ بن ہبیرہ، عمرو بن معد یکرب وغیر ہ، لہٰذا جب صحابی کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اسلام پر فوت ہوا ہو، تو اس روایت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان پر قائم نہ رہنے پر استدلال کیونکر ہوسکتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: ولا شك أن مـن ارتـد سـلب اسم الصحبة لأنها نسبة شريفة إسلامية فلا يستحقها من ارتد بعد أن اتصف بها۔ (فتح الباری: 490/6) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو مرتد ہو گیا، اس سے صحابی کا لقب سلب ہو گیا، کیونکہ صحابی اسلام کی مہتم بالشان نسبت ہے۔ صحابی ہونے کے بعد جو اسلام سے مرتد ہوا، وہ اس لقب کا مستحق نہیں۔ (مقام صحابه از ارشادالحق اثری بس: 96 تا 98)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 49