مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا علی ابن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 58
حدیث نمبر: 58
58 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا يَحْيَي بْنُ عِيسَي، ثنا الْأَعْمَشُ، ثنا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ «لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأُمِّيُّ أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ»
58- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اُمّی نبی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور تم سے صرف منافق بغض رکھے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه مسلم 78، وأخرجه وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:291، وابن حبان: 5924»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:58  
58- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اُمّی نبی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ تم سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور تم سے صرف منافق بغض رکھے گا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:58]
فائدہ:
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن کا مرتبہ قرآن و حدیث میں مسلمہ ہے۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت جزو ایمان ہے۔ مسلمان کبھی کسی صحابی کے بارے میں غلو نہیں کرتا بلکہ ہر ایک سے محبت رکھتا ہے۔ اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا ذکر ہے اور الحمد للہ تمام مسلمانوں کو ان سے محبت ہے
اس حدیث کے فوائد میں مولانا عطاء اللہ ساجد رحمہ اللہ لکھتے ہیں: محبت سے مراد وہ غلو نہیں ہے جو بعض اہل بدعت میں پایا جاتا ہے، مثلاً بعض نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبیوں علیہم السلام کی طرح معصوم قرار دے دیا ہے بعض نے سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم سے افضل قرار دیا ہے، بعض ان میں خدائی صفات کے قائل ہیں، اور بعض نے انھیں ہی خدا قرار دے دیا ہے، جو انسانی صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نام کی نذر و نیا ز یا مصائب و مشکلات میں انھیں پکارنا، یا علی، یاعلی مدد کے نعرے لگانا اور نادعلی وغیرہ کے اذکار پڑھنا، ہاتھ کے ایک پنجے کی شکل بنا کر اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے ان مشکلات کے حل کا باعث سمجھنا، سب شرکیہ اعمال ہیں، جن کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے اور نہ ہی وہ ان سے راضی ہیں، ان امور کا اس محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ایمان کی علامت ہے۔ (سنن ابن ماجہ، مترجم: 181/1، طبع دارالسلام)
صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے ہیں ان پر تبصرہ و تنقید کرنے کی کسی کو جرٱت نہیں کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہن سے راضی ہے، والحمد للہ۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 58