مسند الحميدي
أَحَادِيثُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 66
حدیث نمبر: 66
66 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضْتُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أُشْفِيتُ مِنْهُ عَلَي الْمَوْتِ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا، وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ «لَا» قُلْتُ: فَالشَّطْرُ قَالَ: «لَا» قُلْتُ: فَالثُّلُثُ قَالَ: «الثُّلُثُّ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ إِنْ تَتْرُكْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّي اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَي فِي امْرَأَتِكَ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ عَلَي هِجَرَتِي فَقَالَ «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً وَلَعَلَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي حَتَّي يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرُّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَاتَرُدَّهُمْ عَلَي أَعْقَابِهِمْ» وَلَكِنَّ الْبَائِسَ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ قَالَ سُفْيَانُ وَسَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ
66- عامر بن سعد اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میں مکہ میں بیمار ہوگیا، ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پر پہنچ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے پاس تشریف لائے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے، تو کا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔ میں نے عرض کیا: نصف کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔ میں نے عرض کی: ایک تہائی کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کردو! ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے ورثاء کو خوشحال چھوڑ کر جاتے ہو، تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں مفلوک الحال چھوڑ کر جاؤ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا، یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ جو لقمہ ڈالو گے (اس کا بھی تمہیں اجر ملے گا)۔۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے کردیا جاؤں گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں مجھ سے پیچھے نہیں کیا جائے گا تم جو بھی عمل کرو گے، جس کے ذریعے تم نے اللہ کی رضا چاہی ہوگی، تو اس کے نتیجے میں تمہاری رفعت اور مرتبے میں اضافہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ میرے بعد بھی زندہ رہو تاکہ بہت سے لوگ تم سے نفع حاصل کریں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو تم سے نقصان ہو۔
(پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی): اے اللہ میرے اصحاب کی ہجرت کو باقی رکھنا اور تو انہیں ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹانا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے۔
(سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر افسوس کا اظہار اس لیے کیا، کیونکہ ان کا انتقال مکہ میں ہوگیا تھا۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو عامر بن لوی سے تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6733، ومسلم: 1628، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:427، 447، وصحيح ابن حبان: 4249»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:66  
66- عامر بن سعد اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میں مکہ میں بیمار ہوگیا، ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پر پہنچ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے پاس تشریف لائے، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے، تو کا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔ میں نے عرض کیا: نصف کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں۔‏‏‏‏ میں نے عرض کی: ایک تہائی کردوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:66]
فائدہ:
صحا بہ کرام رضی اللہ عنہن سخی لوگ تھے، اور وہ دنیا وما فیہا سے بے رغبتی اختیار کرنے والے تھے۔ ورثاء تھوڑے ہوں یا زیادہ کوئی بھی انسان اپنے مال سے زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ اللہ تعالی کی راہ میں دے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں کیونکہ ہر نیکی کے کام میں اتباع قرآن و حدیث شرط ہے۔ اسلام کے قوانین کس قدر پیارے ہیں کہ وہ کسی کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا، اس سے ہر ممکن طریقے سے بچنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اولاد کو اپنے پیچھے فقیر چھوڑنے سے کئی گنا بہتر ہے کہ انھیں خوشحال چھوڑا جائے۔ اس حدیث سے ہجرت کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ثابت قدمی کی دعا فرمایا کرتے تھے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 66