مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 86
حدیث نمبر: 86
86 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا «فَجَعَلَ يَطْعَنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ» وَيَقُولُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ، جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا»
86- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے، تو اس وقت خانۂ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ (360) بت نصب تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک میں موجود چھڑی کے ذریعہ انہیں مارنا شروع کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھتے جارہے تھے۔ حق آگیا اور باطل (کسی چیز کا) نہ آغاز کرتا ہے اور نہ ہی دوبارہ کرتا ہے۔
(یہ بھی پڑھا) حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 2478، 4287، ومسلم: 1781، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4967، وصحيح ابن حبان: 5862، وأحمد فى "مسنده"، برقم: 3654»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:86  
86- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے، تو اس وقت خانۂ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ (360) بت نصب تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک میں موجود چھڑی کے ذریعہ انہیں مارنا شروع کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھتے جارہے تھے۔ حق آگیا اور باطل (کسی چیز کا) نہ آغاز کرتا ہے اور نہ ہی دوبارہ کرتا ہے۔ (یہ بھی پڑھا) حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:86]
فائدہ:
اس حدیث مبارکہ میں فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ کے اردگرد سے بتوں کوختم کرنے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام طاقت سے ہی غالب آ تا ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا دین ہے، اس کو کوئی بھی مغلوب نہیں کر سکتا۔ بتوں کو توڑنا فرض ہے کیونکہ یہ شرک کے اڈے ہوتے ہیں۔ یہی توحید کی غیرت ہے، اور دین ابراہیم علیہ السلام کی تجدید بھی ہے۔ جو چیز غلط ہو اس کے خلاف ہاتھ، زبان اور قلم استعمال کرنا فرض ہے، تاکہ احقاق حق اور ابطال باطل ثابت کیا جا سکے۔ امت مسلمہ سوئی ہوئی ہے، بزدل بن چکے ہیں، جرٱت ختم ہو چکی ہے، حالانکہ انقلاب کے لیے استقامت، حوصلہ اور جرٱت چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 86   
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:86/2  
فائدہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شق القمر کے معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔
«SRتـبـصـرهER» ...... اگر اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ چاند کا پوری دنیا میں دیکھا جانا ناممکنات میں سے تھا۔ کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اس کے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا۔ پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نا تھا اور اس روایت کے مطابق کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے اثرات زمین پر کسی قسم کے پڑے کہ لوگ خصوصی طور پر گھروں سے نکل آتے اور اس منظر کو دیکھ پاتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظر میں چاند پر ہوتیں۔ اس لیے میں معجزہ صرف انھی لوگوں نے دیکھا جنھوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن پھر بھی بہت سے ایسے آثار موجود ہیں جو اس واقعے کی گواہی دیتے ہیں، ہم چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔
? آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھی اس قسم کے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو معجزۂ شق القمر کو بخو بی واضح کرتے ہیں،، کچھ غیر ملکی اخبار نے ایک خبر نشر کی تھی جس کا عربی ترجمہ آستانہ سے نکلنے والے عربی اخبار الانسان میں شائع ہوا تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کی ایک قدیم عمارت سے کچھ پتھر نکلے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ اس مکان کی تعمیر فلاں سال میں ہوئی، جس سال کہ ایک بہت بڑا آسمانی حادثہ اس طور پر رونما ہوا تھا کہ چاند دو حصوں میں بٹ گیا، ماہرین نے اس پتھر پر لکھی ہوئی تاریخ کا جب حساب لگایا تو ٹھیک وہی تاریخ تھی جب مولانا و سیدنا رسول اللہ ﷺ کے انگلیوں کے اشارہ سے معجزہ شق القمر رونما ہوا تھا!! (باكورة الكلام، بحواله محمد ﷺ ص: 383، مطبعه دارالکتب العلميه بيروت، سنه 5791)
? انگریز دور میں پادری فنڈر نے مشہور عالم مولا نا رحمت اللہ کیرانوی کے ساتھ مناظرہ میں بھی یہ سارے اشکالات پیش کیے تھے۔ مولانا کے جوابات سے لا جواب ہوا (یہ جوابات مولا نا کیرانوی کی مشہور زمانہ کتاب اظہار الحق کی اردو شرح بائبل سے قرآن تک از مفتی تقی عثمانی صاحب کی تیسری جلد میں صفحہ 115 پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں)۔ اس کے علاوہ مفتی عنایت اللہ رحمہ اللہ نے رسالہ الكلام المبین میں بھی بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہاں اس کی نقل کی گنجائش نہیں، مفتی صاحب نے بعض راجاؤں کے دیکھنے کے بھی مستند حوالے دیے ہیں۔ اس طرح مولانا رفیع الدین صاحب کا ایک مستقل رسالہ ان عتراضات کے جواب میں ہے۔ (اسلام اور عقلیات صفحہ: 294)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
حدیث نمبر: 86Q1
86/م- حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِشِقَّتَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ -صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: «اشْهَدُوا اشْهَدُوا» . حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ أَثْبَتَ لَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ.
86/2- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ گواہ ہوجاؤ، تم لوگ گواہ ہوجاؤ۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن ابونجیح نے یہ دو روایات ابومعمر کے حوالے سے ہمیں بتائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 3636، 3669، 3671، 4864، 4865، ومسلم: 2800، وأبويعلي فى المسنده: 4968، 5070، 5196، وصحيح ابن حبان: 6495» ‏‏‏‏