مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 92
حدیث نمبر: 92
92 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مَنْصُورٌ نا ذَرٌّ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مَهَانَةٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ فِإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ» فَقَامَتِ امْرَأَةٌ لَيْسَتْ مِنْ عِلْيَةِ النِّسَاءِ فَقَالَتْ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ» ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: «مَا وُجِدَ مِنْ نَاقِصِ الْعَقْلِ وَالدِّينِ أَغْلَبَ لِلرِّجَالِ ذَوِي الرَّأْيِ عَلَي أُمُورِهِمْ مِنَ النِّسَاءِ» قَالَ: فَقِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا نُقْصَانُ عَقْلِهَا وَدِينِهَا؟ قَالَ: «أَمَّا نُقْصَانُ عَقْلِهَا فَجَعَلَ اللَّهُ شَهَادَةَ امْرَأَتَيْنِ بِشَهَادَةِ رَجُلٍ، وَأَمَّا نُقْصَانُ دِينِهَا فَإِنَّهَا تَمْكُثُ كَذَا يَوْمًا لَا تُصَلِّي لِلَّهِ سَجْدَةً»
92- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اے خواتین کے گروہ! تم صدقہ کیا کرو خواہ تم اپنے زیور ہی صدقہ کرو، کیونکہ اہل جہنم کی اکثریت تمہاری ہے۔ تو ایک عورت کھڑی ہوئی جو کسی بڑے خاندان کی نہیں تھی اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی وجہ کیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تم خواتین لعنت بکثرت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسی کوئی مخلوق نہیں پائی گئی، جو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہو لیکن سمجھدار مردوں کے معاملات میں ان پر غالب آنے کے حوالے سے خواتین سے بڑھ کے ہو۔ راوی کہتے ہیں: تو دریافت کیا گیا: اے ابوعبدالرحمٰن! ان کے عقل دین میں کیا کمی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: جہاں تک ان کی عقل کی کمی کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے دو خواتین کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دی ہے۔ جہاں تک ان کے دین میں کمی کا تعلق ہے، تو ایک عورت کئی روز تک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے وہئے نماز ادا نہیں کرسکتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5112، وصحيح ابن حبان: 3323، والحاكم فى "مستدركه"، برقم: 2788، برقم: 8881، وأحمد فى "مسنده"، برقم: 3639»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:92  
92- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اے خواتین کے گروہ! تم صدقہ کیا کرو خواہ تم اپنے زیور ہی صدقہ کرو، کیونکہ اہل جہنم کی اکثریت تمہاری ہے۔ تو ایک عورت کھڑی ہوئی جو کسی بڑے خاندان کی نہیں تھی اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی وجہ کیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تم خواتین لعنت بکثرت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسی کوئی مخلوق نہیں پائی گئی، جو عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ہو لیکن سمجھدار مردوں کے معاملات میں ان پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:92]
فائدہ:
اس حدیث میں صدقے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں، اگر چہ یہ خطاب صرف عورتوں ہی کو تھا۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال کرنا چاہیے۔ انھیں دینی علوم و فنون پڑھائے جائیں تا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو، اور وہ جہنم سے بچ سکیں۔ خواتین میں دو بری خصلتیں عام ہوتی ہیں: ① لعنت کرنا۔ ② خاوندوں کی ناشکری کرنا، اور یہ دونوں بدترین حصلتیں ہیں۔ مرد عورتوں سے طاقت ور ہیں، اور دین اور عقل کے لحاظ سے عورتوں پر فائق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت کا عظیم شرف مردوں کے حصے میں آیا ہے نہ کہ عورتوں کے حصے میں۔ اسی طرح قیادت و سیادت کا اہل بھی مرد ہیں نہ کہ عورتیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کم عقل اور کم علم جب اہل علم سے جھگڑا کرتا ہے، تو اہل علم مہذب ہوتا ہے، لیکن کم علم حماقتوں سے بھری باتیں کرتا ہے، اس لیے غالب رہتا ہے، یہی صورت حال عورتوں کی ہے۔ عورت حالت حیض میں نماز نہیں پڑھے گی، اور نہ ہی روزہ رکھے گی لیکن بعد میں روزوں کی قضائی دے گی، جبکہ نماز کی قضائی نہیں دے گی۔ جب یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عورتیں کم عقل ہیں، تو اس لیے ان کی تعلیم و تربیت اشد ضروری ہے۔ افسوس کہ ان کی اخلاقیات کو سکولوں و کالجز میں مزید خراب کیا جارہا ہے، اور ایسی خطرناک صورت حال بن چکی ہے کہ جس کو بیان کرنے کی قلم اجازت نہیں دیتا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 93