مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 110
حدیث نمبر: 110
110 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَمَا مَلَكْتُ نَفْسِي أَنْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، أَوْ قَالَ لَوْنُهُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَتَمَنَّيْتُ أَنِّي كُنْتُ أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أُوذِيَ مُوسَي بِأَشَدَّ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ»
110- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز تقسیم کی، تو ایک شخص بولا: یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے: مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اس وقت یہ آرزو کی کہ کاش میں اس دن مسلمان ہوا ہوتا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کرتے ہیں: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ اذیت پہنچائی گئ تھی لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 3150،3405، 4335، 4336، 6059، 6100، 6291، 6336، ومسلم فى ”صحيحه“ برقم: 1062 وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 2917، 4829، 6212، وأحمد فى مسنده، برقم: 3678، وأبو يعلى فى ”مسنده“: برقم: 5133 5206، والبزار فى مسنده: برقم: 1666، 1702»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:110  
110- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز تقسیم کی، تو ایک شخص بولا: یہ ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے: مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے اس وقت یہ آرزو کی کہ کاش میں اس دن مسلمان ہوا ہوتا۔ س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:110]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر اعتراض معتبر نہیں ہوتا، بلکہ بعض اعتراضات فضول اور ردی ہوتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ انسان کو بے جا اعتراض سے پریشانی لازم آتی ہے اور سننے والے لوگ بھی پریشان ہوتے ہیں، اس لیے کسی کو بے جا پریشان کرنا درست نہیں ہے علم عمل دور دور تک نہیں ملتا ہے، جبکہ شکوک و شبہات اور بدگمانیاں عام ہیں۔ علم و عمل کے بغیر معاشرہ اسلامی نہیں بن سکتا۔ کوئی تکلیف دے تو اس پر صبر کرنا چاہیے، انبیاء کرام علیہم السلام کے ورثاء علمائے کرام کو اکثر تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو انھیں ان پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ جب انبیائے کرام علیہم السلام تکالیف سے نہیں بچ سکے تو علمائے کرام کیسے بچ سکیں گے؟
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 110