مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 130
حدیث نمبر: 130
130 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ هَلْ رَأَيْتَ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، كَانَ يَنْزِلُ عَلَيْنَا فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: كُنْتُ أَمْشِي خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: «يَا أَبَا ذَرٍّ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَي كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟» فَقُلْتُ: بَلَي يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ»
130- عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتا ہوا جارہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! کیا میں تمہاری رہنمائی جنت کے خزانے کی طرف نہ کروں؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے «‏‏‏‏لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ» ‏‏‏‏ اللہ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 361، 449، 820،وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 21693»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:130  
130- عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلتا ہوا جارہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! کیا میں تمہاری رہنمائی جنت کے خزانے کی طرف نہ کروں؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے «‏‏‏‏لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ» ‏‏‏‏ اللہ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:130]
فائدہ:
سبحان اللہ! اسلام کس قدر پیارا دین ہے کہ چھوٹے سے عمل کو جنت کا خزانہ قرار دے دیا ہے، اس لیے چھوٹے سے عمل کو بھی حقیر سمجھ کر چھوڑ نہیں دینا چاہیے۔ یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ اذان کے جواب میں «لا حول ولا قوة الا بالله» کہا: جا تا ہے، اور باقی اذان کے وہی الفاظ جواب میں دہرائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ «حي على الصلاة» میں نماز کے آنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے، جس سے شیطان روکتا ہے، کہ اے انسان! تو نماز نہ پڑھ۔ شیطان کی باطل پالیسی کو رد کرنے کے لیے کہا جا تا ہے «لا حول ولا قوة الا بالله» یعنی اے اللہ! تو ہی نماز ادا کرنے کی توفیق دے سکتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 130