مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات

حدیث نمبر 286
حدیث نمبر: 286
286 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ وَايِلِ بْنِ دَاوُدَ عَنِ ابْنِهِ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا «يَا عَائِشَةَ إِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَلَمَّ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ، وَاسْتَغَفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ رُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ «إِنْ كُنْتَ بِذَنْبٍ أَلْمَمْتَ فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ فَإِنَّ التَّوْبَةَ النَّدَمُ وَالَاسْتِغْفَارُ» وَأَكْثَرُ ذَلِكَ يَقُولُ عَلَي الْأَوَّلِ
286- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! اگر تم نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا، تو تم اللہ سے مغفرت طلب کرو، کیونکہ جب انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ پھر توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردیتا ہے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کئے ہیں: اگر تم نے گناہ کا ارادہ کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کو کیونکہ توبہ ندامت کا اظہار اور استغفار کرنا ہوتا ہے۔ تاہم سفیان اکثراوقات پہلے والے الفاظ ہی نقل کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى المغازي برقم:4141، ومسلم فى التوبة 2770، وقد استوفينا تخریجه ضمن حديث الإفك الطويل فى مسند الموصلي برقم 4931. وفي ربيع ابن حبان» برقم 634»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:286  
فائدہ:
اس حدیث میں بیان ہے کہ جب ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اوپر بہتان لگا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اے عائشہ! اگر تجھ سے گناہ ہوا ہے تو توبہ کر لے اور اپنے گناہ کی معافی مانگ لے۔ مفصل حدیث (صحيح البخاری: 475) میں موجود ہے۔ واقعہ افک کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے «خيــر ا لـكـم» قرار دیا ہے۔ یہ واقعہ حقیقت میں کئی لحاظ سے بہتر ثابت ہوا ہے، اس کی تفصیل حافظ عبد السلام بن محمد رحمہ اللہ کے قلم سے لکھی جاتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
① اس واقعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین اور صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کو جو رنج و غم پہنچا اور مسلسل ایک ماہ تک وہ شدید کرب میں مبتلا رہے، اس کرب پر صبر اور بہتان لگانے والوں سے درگزر کا یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت اجر ملا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ» (صرف صبر کرنے والوں کو ہی ان کا اجر بغیر کسی شمار کے دیا جائے گا)، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے سے تمام بہتان لگانے والوں کی گردنیں تن سے جدا ہو سکتی تھیں، اس اجر کے علاوہ برٱت کی آیات نازل ہونے پر ان تمام حضرات کو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنا صدمہ پہنچا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیات اتر نے پر ہنس رہے تھے، اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین، صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کو حد درجہ خوشی ہوئی تھی۔
② ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعے سے جو عزت ملی، امت مسلمہ میں سے کسی کو حاصل نہ ہوئی، کہ ان کی بریت کے لیے قرآن مجید اترا، تو قیامت تک تمام دنیا میں پڑھا جاتا رہے گا، اور قرآن نے ان کی جو بریت بیان فرمائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعدام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزہ زندگی اس کی سچی دلیل ہے، کہ وہ ہر بہتان سے پاک ہیں، اس سے قرآن کا اعجاز بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی ہے، اور نہ ہو گی۔ اس واقعہ میں یہ بھی خیر ہے کہ بہتان لگانے والے مخلص مسلمانوں پر حد لگنے سے وہ گناہ سے پاک ہو گئے، اور منافقین کا نفاق واضح ہو گیا، جس سے آئندہ ان کے نقصانات سے بچنا آسان ہو گیا۔ اس واقعہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیک نفسی اور پاک طبیعتی بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلسل ایک ماہ کے پروپیگنڈے کے باوجود مخلص مسلمانوں میں سے صرف تین آدمی، حسان بن ثابت، سطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم، اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بدگمانی سے پوری طرح محفوظ رہے، ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی میں حصہ نہیں لیا حتی کہ زینب بنت جحش نے جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سوکن تھیں، سوکن ہونے کے باوجود قسم کھا کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاک ہونے کی شہادت دی۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بہتان لگانے کے باوجود مسطح سے حسن سلوک ان کی خشیت الٰہی اور صبر کا بہترین نمونہ ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بہتان لگانے کے باوجود حسن سلوک اور ان کی عزت افزائی کرنا ان کے عالی نفس ہونے کی دلیل ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ ایک ماہ تک مسلسل کرب میں مبتلا نہ رہتے، اس سے غلو کی جڑ کٹ گئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود ونصاریٰ مبتلا ہوئے اور جس میں بعض نادان مسلمان بھی مبتلا ہیں۔ اس واقعہ کے نتیجے میں زنا اور قذف کی حد بھی نازل ہوئی، اور قیامت تک کے لیے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی عصمت وآبرو وعفت بہتان طرازوں سے محفوظ کر دی گئی، اور مسلم معاشرے میں بے حیائی کی اشاعت کا سد باب کر دیا گیا۔ (تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد: 87/3، 88)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 286