مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا -- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے منقول روایات

حدیث نمبر 323
حدیث نمبر: 323
323 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ أَنَّهُ سَمِعَ فَاطِمَةَ بِنْتَ الْمُنْذِرِ تَقُولُ سَمِعْتُ أَسْمَاءَ تَقُولُ: سَأَلَتِ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ فَأَمْرَقَ شَعْرُهَا، وَإِنِّي زَوَّجْتُهَا أَفَأَصِلُ فِيهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ»
323- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بیٹی کو بخار ہوا جس کے نتیجے میں اس کے بال گر گئے اب میں نے اس کی شادی کرنا ہے تو کیا میں اسے مصنوعی بال لگوادوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے مصنوعی بال لگائے جائیں ان پر لعنت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «اللباس» برقم: 5935، 5936، 5941، ومسلم فى «اللباس وزينة» برقم: 2122، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1988، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25443»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:323  
323- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بیٹی کو بخار ہوا جس کے نتیجے میں اس کے بال گر گئے اب میں نے اس کی شادی کرنا ہے تو کیا میں اسے مصنوعی بال لگوادوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے مصنوعی بال لگائے جائیں ان پر لعنت کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:323]
فائدہ:
اس حدیث میں وگ (بناوٹی بال) لگوانے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض لوگ اس شخص یا اس عورت کے لیے گنجائش نکالتے ہیں جس کا مکمل سر گنجا ہو جائے، اور دلیل ازالہ عیب بتاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اگر کسی کے سر کے مکمل بال ختم ہو جائیں تو وہ ازالہ عیب کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر وگ نہیں لگا سکتا:
① احادیث میں با صراحت بالوں کے ساتھ بال جوڑ نے (یعنی وگ) سے منع کیا گیا ہے۔
② قطعی نص کی موجودگی میں قیاس سے مسئلہ اخذ کر نامحل نظر ہے۔ جب نص موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مصنوعی بال (وگ) لگانے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ اس کے سر کے تمام بال گر گئے تھے، اب اس کی موجودگی میں اس حدیث پر قیاس کرنا جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی، جب اس کی ناک جنگ میں کٹ گئی تھی محل نظر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آدمی کی ناک کٹ جائے تو نئی بناوٹی ناک لگوانا جائز ہے، کیونکہ اس کا جواز مل رہا ہے، اور اس سے منع نہیں کیا گیا، لیکن مصنوعی بال (وگ) لگوانے کی ممانعت موجود ہے۔ اب وہ دلیل مطلوب ہے جس میں مصنوعی بال لگوانے کی اجازت ہو۔
③ فیشن کی شرط لگانا بھی محل نظر ہے، کیونکہ اس کے لیے بھی نص صریح چاہیے۔ اگر کوئی کہے کہ وگ فیشن کی وجہ سے لگانا حرام ہے اور فیشن کی غرض سے نہ ہو تو وگ کا استعمال درست ہے، یہ فرق درست نہیں ہے، کیا یہ فرق قرآن و حدیث میں ہے؟ «اڈ ليس فليس»
④ جب گنجے پن کوختم کرنے کا علاج (پیوند کاری) موجود ہے جس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے تو اس علاج کی موجودگی میں حرام اور ممنوع فعل (وگ لگانا) کو مباح قرار دینا درست نہیں ہے۔ (بالوں کا معاملہ از راقم الحروف بص: 45۔ 51)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 323