مسند الحميدي
أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّتِي قَالَ فِيهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔

حدیث نمبر 477
حدیث نمبر: 477
477 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ «فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوءًا خَفِيفًا، وَجَعَلَ يَصِفُهُ وَيُقَلِّلُهُ» فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ الَّذِي صَنَعَ ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخْلَفَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ «فَصَلَّي ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّي نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَخَرَجَ فَصَلَّي وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» ،
477- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا، جو مختصر تھا۔ پھر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ تھوڑا سا تھا، تو میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی اسی طرح کیا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں طرف کھڑا کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لئے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 117، 138، 183، 697، 698، 699، 726، 728، 859، 992، 1198، 4569، 4570، 4571، 4572، 5919، 6215، 6316، 7452، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 256، 304، 763، ومالك فى «الموطأ» برقم: 120، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 127، 448، 449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1445، 2196، 2579، 2592، 2626، 2627، 2636،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2465، 2545، 2570»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:477  
477- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا، جو مختصر تھا۔ پھر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ تھوڑا سا تھا، تو میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی اسی طرح کیا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں طرف کھڑا کرلیا، پھر آپ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:477]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو خفیف بھی کر سکتے ہیں، اور جب امام اور ایک مقتدی ہو تو امام کو بائیں جانب اور مقتدی کو دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ نماز میں آدمی ضرورت کے وقت چل سکتا ہے، کوئی غلطی کر رہا ہو تو اس کی نماز میں اصلاح کرنا ٹھیک ہے۔ اس پر کئی ایک دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
① ایک دلیل تو یہی مسند حمیدی کی حدیث ہے جو زیر شرح ہے۔
② حالت نماز میں چند قدم چلنا، جیسے کسی کو پکڑ کر اگلی صف میں کر دینا وغیرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا پس میں آ کر دروازہ کھلواتی (یعنی کھٹاکھٹاتی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر دروازہ کھولتے پھر جائے نماز کی طرف لوٹ جاتے۔ [سنن ابوداود: 922 سنن الترمذي 201 سنن نسائي 1206 - حسن]
③ اگر کوئی سترہ کے بغیر نماز پڑھ رہا ہے تو اسے سترہ کے قریب کردینا ہی درست ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو جو دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہا تھا، ستون کے قریب کر دیا اور فرمایا: اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ۔ [صحيح البخاري تعليقاً قبل ح 502] یہ اثر موصولا [مصنف ابن ابي شيبه: 146/2] میں ہے اور اس میں یہ وضاحت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں گدی سے پکڑ کر ستون کے پاس کھڑا کر دیا۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی مصلحت کی خاطر چلنا درست ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، درج ذیل محدثین نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا ہے، مثلاً
● امام سفیان [صحيح مسلم تحت حديث: مسند حميدي: 479]
● امام ابن خزیمہ [صحيح ابن خزيمه: 1]
● امام نووی [شرح مسلم للنووي: درسي]
امام کی عدم موجودگی میں جلدی جماعت نہیں کروانی چاہیے، بلکہ امام کو بلا لینا چا ہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 477