مسند الحميدي
أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّتِي قَالَ فِيهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔

حدیث نمبر 487
حدیث نمبر: 487
487 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِدَلُوٍ مِنْ زَمْزَمَ فَنُزِعَ لَهُ فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ»
487- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت آب زم زم کا ڈول نکالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہوکر پیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1637، 5617، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2027، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2945، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3838، 5319، 5320، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7303، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2964، 2965، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3942، 3943، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1882، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3422»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:487  
487- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت آب زم زم کا ڈول نکالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہوکر پیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:487]
فائدہ:
۔۔۔ سوال: آب زم زم کھڑے ہوکر پینے کے تعلق سے یہ سوال ہے کہ کیا یہ جائز ہے؟
جواب۔۔۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: دیکھیں آب زم زم کے بارے میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پی رہے تھے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور ہم نے بھی ابھی ذکر کیا تھا۔ تو اسے سنت لازمہ بنا دیا کہ کھڑے ہوکر آب زم زم پیا جائے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ کھڑے ہوکر پیا تھا اس کی وجہ لوگوں کا رش اور بھیڑ تھی۔
جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی سیرت پڑھے گا پھر خصوصی طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ چلتے تھے تو اس پر یہ بات مکمل روشن و واضح ہو جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طور پر اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بالکل نہیں رکھتے تھے، پس آپ آخری دور کے امراء کی طرح نہیں تھے کہ ان کے لیے راستے خالی کرواد یے جاتے ہیں بلکہ ابھی تو ان کے لیے پوری مسجد الحرام تک خالی کروا دی جاتی ہے۔
کعبۃ اللہ تو دور کی بات رہی اور آخر تک جو کچھ ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وصفات میں سے یہ نہ تھا۔ بلکہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن قدامہ العامری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر چلے جارہے تھے اور: «ولا طرد ولا إليك إليك» (نہ لوگوں کو دھکیلا جارہا تھا، نہ راستے سے ایک طرف ہو جانے کو کہا: جارہا تھا)۔ یعنی ان سب کے ساتھ ہی چلے جارہے تھے۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے راستے صاف کرو، بالکل نہیں۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے اور آب زم زم میں سے پینا چاہا تو کیا طلب کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ اگر ہم اپنے آپ پر انھیں قیاس کریں کہ آب زم زم پینے کے لیے طلب کر رہے ہوں، تو یہ طلب کریں گے کہ ان کے لیے تازہ پانی کا ڈول نکالا جائے، لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہیں سے دے دو جہاں سے دیگر مسلمان پی رہے ہیں یعنی اس مشکیزے سے۔ لہٰذا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیٹھ کر پینا چاہتے تو رش کی شدت کے باعث بھیڑ تلے کچلے جانے تک کا خطرہ تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق میں سے نا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعینات فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں چمٹ کر لوگوں کو کہتے رہیں راستہ دو راستہ دو۔ بالکل نہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔
اس طرح بعض دوسری احادیث میں جو سنن الترمذی میں ہیں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مشکیزے کے پاس آئے جو لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے اس کا بند کھولا اور کھڑے ہو کر ہی اس میں سے پیا، کیونکہ وہ او پر لٹکا ہوا تھا، اور یہاں کھڑے ہوکر پینا اصل مقصود نہ تھا، بلکہ آپ تو مجبور تھے۔ چنانچہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ اس قسم کے جزئی واقعات و حادثات کا ہم قواعد کلیہ سے ٹکراؤ کریں۔ آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا، بلکہ زجر بھی فرمایا (ڈانٹا بھی) اور قے تک کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی طرح سے ہونا چاہئے اس شخص کو جو رب العالمین کی طرف س بھیجے گئے دین تققہ چاہئے (یعنی وہ دلائل کو جمع کرتا اور اصول پر چلتا ہے)۔
① صحيح بخاری 1637 میں سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «سـقيـتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم، فشرب وهو قائم» (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آب زم زم پلایا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہونے کی حالت میں پیا)۔
امام مسلم رحمہ اللہ صحيح مسلم میں «باب فى الشرب من زمزم قائما» (باب: آب زم زم میں سے کھڑے ہوکر پینے کے بارے میں) کے تحت چار روایات لائے ہیں۔
② اسے امام الترمذی نے 903 میں روایت فرمایا، اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
③ دیکھیں صحیح مسلم میں «باب كراهية الشرب قائما» (باب: کھڑے ہوکر پینے کی کراہیت کے بارے میں)، جبکہ جو علماء جواز کے قائل ہیں اس کے لیے پڑھیں صحیح بخاری [باب الشـرب قـائما] (کھڑے ہوکر پینے سے متعلق باب) جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھی روایت ہے کہ کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا لوگ اسے مکر وہ و نا پسندیدہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کھڑے ہوکر پیتے دیکھا۔ واللہ اعلم (اس فتوے کا ترجمہ مولا نا طارق بروہی ﷾ نے کیا ہے۔)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 487