مسند الحميدي
فِي الْحَجِّ -- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی منقول حج سےمتعلق روایات

حدیث نمبر 536
حدیث نمبر: 536
536 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلُ وَكَانَ ثِقَةً قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَي حَتَّي بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَي فَقِيلَ لَهُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ فَقَالَ: «ايْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا» فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالَ مَا شَأْنُهُ؟ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ فَرَدُّوا عَلَيْهِ فَقَالَ: «دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ» قَالَ: وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ فَقَالَ «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ سُلَيْمَانُ لَا أَدْرِي أَذَكَرَ سَعِيدٌ الثَّالِثَةَ فَنَسِيتُهَا أَوْ سَكَتَ عَنْهَا
536- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جمعرات کا دن بھی کیا تھا؟ پھر وہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔ ان سے کہا گیا: اے ابوعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: جمعرات کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پاس کوئی چیز لے آؤ تاکہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ (سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں) تو حاضرین میں اس بارے میں اختلاف ہوگیا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح کا اختلاف مناسب نہیں ہے۔ کسی صاحب نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معاملہ ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غیر واضح ہے، تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو۔ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ یہی سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم مجھے ایسے ہی رہنے دو۔ میں جس حالت میں ہوں یہ اس سے زیادہ بہتر ہے، جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو تین باتوں کی تلقین کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جزیرۂ عرب سے مشرکین کو نکال دو، اور وفود کی اسی طرح مہمان نوازی کرنا، جس طرح میں ان کی مہمان نوازی کیا کرتا تھا۔
سفیان کہتے ہیں: سلیمان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے، مجھے یہ نہیں معلوم کہ سعید نامی راوی نے تیسری بات ذکر کی تھی، اور میں اسے بھول گیا ہوں، یا انہوں نے تیسری بات ذکر ہی نہیں کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 114، 3053، 3168، 4431، 4432، 5669، 7366، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1637، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6597، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5821، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3029، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18815، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 1960، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2409»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:536  
536- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جمعرات کا دن بھی کیا تھا؟ پھر وہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔ ان سے کہا گیا: اے ابوعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: جمعرات کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پاس کوئی چیز لے آؤ تاکہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ (سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں) تو حاضرین میں اس بارے میں اختلاف ہوگیا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح کا اختلاف مناسب نہیں ہے۔ کسی صاحب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:536]
فائدہ:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب چند دن پہلے کے بخار کی شدت کا بیان ہے، اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کہا: کہ میرے پاس کاغذ لاؤ، پھر جولکھوانا چاہتے تھے، وہ زبانی بول کر بیان کر دیں۔ اس حدیث کو بعض گمراہ لوگ غلط استعمال کرتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار بھی ہوتا تھا، اس کی تکالیف بھی آپ محسوس کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا بہت غم کرتے تھے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ وصیت لکھ کر اور بول کر دونوں صورتوں میں درست ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 536