مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 592
حدیث نمبر: 592
592 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْزِعُهُ مِنْ قُلُوبِ الرِّجَالِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُهُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسَأَلُوهُمْ فَأَفْتَوْهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» قَالَ عُرْوَةُ:" ثُمَّ لَبِثْتُ سَنَةً، ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فِي الطَّوَافِ فَسَأَلْتُهُ عَنْهُ فَأَخْبَرَنِي بِهِ
592- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کویوں قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں میں سے نکال لے گا بلکہ وہ اسے علماء کو قبض کر کے قبض کرے گا، پھر وہ کسی عالم کوباقی نہیں رہنے دے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ وہ ان سے مسئلے دریافت کریں گے، تو وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود انہیں جواب دیں گے۔وہ لوگ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
عروہ کہتے ہیں۔ پھر کئی سال گزرگئے پھر میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا: تو انہوں نے مجھے اس کے بارے میں بتایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 100، 7307، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4571، 6719، 6723، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5876، 5877، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2652، والدارمي فى «مسنده» برقم: 245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 52، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20411، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 6622»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:592  
592- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کویوں قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں میں سے نکال لے گا بلکہ وہ اسے علماء کو قبض کر کے قبض کرے گا، پھر وہ کسی عالم کوباقی نہیں رہنے دے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ وہ ان سے مسئلے دریافت کریں گے، تو وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود انہیں جواب دیں گے۔وہ لوگ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ عروہ کہتے ہیں۔ پھر کئی سال گزرگئے پھر میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:592]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اہل علم کا وجود ایک بہت بڑی نعمت ہے، ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے، ان کی قدر کرنی چاہیے علم کے صحیح اہل علماء کرام ہی ہوتے ہیں، جب یہ فوت ہو جاتے ہیں تو گویا ہم علم کے سمندروں سے محروم ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھی اہل علم کی وفات کے ساتھ علم کو کم کرتے رہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتنی محنت کے ساتھ کوئی اہل علم علم کا شہسوار بنتا ہے، ایک امت اس سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی ہے لیکن جب وہ اہل علم فوت ہو جاتا ہے تو اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امت کو بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو، اور لوگ تبصرہ بھی کرتے ہیں کہ اب کس سے دینی رہنمائی لیں گے۔
راقم کی زندگی میں چند محدثین فوت ہوئے جن کے فوت ہونے سے علمی دنیا میں بہت بڑا خلاء محسوس کیا گیا، مثلاً محدث العصر شیخ الحدیث خاتمة الحفاظ حافظ عبدالمنان نورپوری، محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، دکتورعبدالرشید اظہر، امام العصر محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ وغیرہ۔
جب صحیح اہل علم فوت ہو جاتے ہیں تو ان کے پیچھے کم پڑھے لکھے اہل علم رہ جاتے ہیں، جو لوگوں کو غلط فتویٰ دیتے ہیں، گویا وہ خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی سمجھ بوجھ کے لیے ہر دور میں ایک جماعت ہونی چاہیے، جو لوگوں کی صحیح رہنمائی کرتی رہے، فتویٰ بڑی محنت کے بعد قرآن و حدیث کے مطابق دینا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 592