مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 595
حدیث نمبر: 595
595 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَي الْهِجْرَةِ وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، قَالَ: «فَارْجِعْ إِلَيْهِمَا وَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا» ،
595- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لیے حاضرہواہوں، تاکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں۔اورمیں اپنے ماں،باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس واپسں جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3004، 5972، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2549، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 318، 419، 420، 421، 423، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7343، 7348، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3103، 4174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4296، 7738، 8643، 8644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2528، 2529، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2782 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17900، 17901، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 6601»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:595  
595- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لیے حاضرہواہوں، تاکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں۔اورمیں اپنے ماں،باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس واپسں جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:595]
فائدہ:
اس حدیث سے والدین کی رضا مندی کی اہمیت و فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ خواہ کام کس قدر ہی نیکی کا کیوں نہ ہو ان کی رضا مندی ضروری ہے۔ اب ہجرت سے بڑھ کر افضل کون ساعمل ہے؟ بعض لوگ قتال میں جانے کے لیے بھی والدین کی اجازت ضروری نہیں سمجھتے، جو کہ درست نہیں ہے۔ نیز دیکھیں: 596۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 595