مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے منقول روایات

حدیث نمبر 646
حدیث نمبر: 646
646 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ إِلَي بَنِي مُعَاوِيَةَ، فَنَبَحَتْ عَلَيْنَا كِلَابُهُمْ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنِ اقْتَنَي كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ»
646-عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں: میں سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بنو معاویہ کی طرف گیا، تو ہم پر ان کے کتے بھونکنے لگے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص کوئی ایسا کتا پالے جو شکار کرنے یا جانوروں کی حفاظت کے لیے نہ ہو، تو اس شخص کے اجر میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5480، 5481، 5482، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1574، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3554، وابن حبان فى «صحيحه» 5653، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4295، 4297، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1487، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11134، 11135، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 4565، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5418، 5441»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:646  
646-عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں: میں سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بنو معاویہ کی طرف گیا، تو ہم پر ان کے کتے بھونکنے لگے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص کوئی ایسا کتا پالے جو شکار کرنے یا جانوروں کی حفاظت کے لیے نہ ہو، تو اس شخص کے اجر میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:646]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حدیث میں مذکور وجوہات کے علاہ کتا رکھنا خسارے کا باعث ہے۔ بعض لوگ یہود ونصاریٰ کی نقالی میں اپنے گھروں میں شوقیہ کتے رکھ لیتے ہیں، ایک جرمن اسکالر اس پر بحث کرتا ہوا لکھتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں لوگوں کے اندر کتے پالنے کا شوق خاصا بڑھ گیا ہے، جس کے پیش نظر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرات کی طرف مبذول کروائی جائے جو اس سے پیدا ہوتے ہیں، خصوصاً جبکہ لوگ کتا پالنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس کے ساتھ خوش طبعی بھی کرنے لگتے ہیں اور وہ اس کو چومتے بھی ہیں، نیز اس کو اس طرح چھوڑ دیا جا تا ہے کہ وہ بچوں اور بڑوں کے ہاتھ چاٹ لے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچا ہوا کھانا کتوں کے آگے اپنے کھانے کی پلیٹوں میں ہی رکھ دیا جا تا ہے، علاوہ ازیں یہ عادتیں ایسی معیوب ہیں کہ ذوق سلیم ان کو قبول نہیں کرتا اور یہ شائستگی کے خلاف ہیں۔ مزید برآں صحت و نظافت کے اصولوں کے بھی منافی ہے
طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کتے کو پالنے اور اس کے ساتھ خوش طبعی کرنے سے جو خطرات انسان کی صحت اور اس کی زندگی کو لاحق ہوتے ہیں، ان کو معمولی خیال کرنا صحیح نہیں ہے، بہت سے لوگوں کو اپنی نادانی کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کتوں کے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو دائمی اور لا علاج امراض کا سبب بنتے ہیں، بلکہ کتنے ہی لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، اس جرثومہ کی شکل فیتہ کی ہوتی ہے، اور یہ انسان کے جسم پر پھنسی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، گو اس قسم کے جراثیم مویشیوں اور خاص طور سے خنزیروں کے جسم پر بھی پائے جاتے ہیں، لیکن نشو ونما کی پوری صلاحیت رکھنے والے جراثیم صرف کتوں پر ہوتے ہیں، یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں، یہ اکثر پھیپھڑے، عضلات، تلی، گردہ اور سر کے اندرونی حصے میں داخل ہوتے ہیں، ان کی شکل بہت حد تک بدل جاتی ہے، یہاں تک کہ خصوصی ماہرین کے لیے بھی ان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے، بہر حال اس سے جو زخم پیدا ہوتا ہے، خواہ وہ جسم کے کسی بھی حصے میں پیدا ہو صحت کے لیے سخت مضر ہے، ان جراثیم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جا سکا ان وجوہ سے ضروری ہے کہ ہم تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ اس لاعلاج بیماری کا مقابلہ کریں اور انسان کو اس کے خطرات سے بچائیں
(اسلام میں حلال وحرام) یعنی کتوں کو رکھنا دین اور دنیاوی دونوں لحاظ سے نقصان ہے، ہاں جن کتوں کو رکھنے کی اجازت ہے، ان کے ساتھ بھی کام کی حد تک رہنا چاہیے، نہ کہ انھیں چومنا اور ہاتھ لگانا چاہیے، ان کے کھانے پینے کے برتن بھی الگ ہونے چاہیے، بلکہ ان کے سونے کی جگہ بھی الگ ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 646