مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ -- سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 767
حدیث نمبر: 767
767 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي قَزَعَةُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ إِيلِيَا» . وَقَالَ رَسُولُ اللهِ - صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا تُسَافِرِ امْرَأَةٌ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ» . وَنَهَي رَسُولُ اللهِ - صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ صَلَاةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّي تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنْ صَلَاةٍ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّي تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔ وَنَهَي عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ يَوْمِ الْأَضْحَي وَيَوْمِ الْفِطْرِ.
767- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جاسکتا ہے۔ مسجد الحرم، میری یہ مسجد اور مسجد ایلیاء (یعنی بیت المقدس)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے: عورت اگر تین دن سے زیادہ کا سفر کرتی ہے، تو اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہو نا چاہیے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ادا کرنے سے منع کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن کے روزے رکھنے سے بھی منع کیا ہے۔ عیدالاضحیٰ کا دن اور عید الفطر کا دن۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 586، 1188، 1197، 1864، 1991، 1995، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 827، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1617، 2723، 2724، 3599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 565، 566، 567، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2417، والترمذي فى «جامعه» برقم: 326، 772، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1794، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1249، 1410، 1721، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4444، 5490، 5491، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 11190 برقم: 11197 برقم: 11467»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:767  
767- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جاسکتا ہے۔ مسجد الحرم، میری یہ مسجد اور مسجد ایلیاء (یعنی بیت المقدس)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے: عورت اگر تین دن سے زیادہ کا سفر کرتی ہے، تو اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہو نا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ادا کرنے سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن کے روزے رکھنے سے بھی منع کیا ہے۔ عیدالاضحیٰ کا دن اور عید الفطر کا دن۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:767]
فائدہ:
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نماز عصر کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنا جائز ہیں منع صرف اس وقت ہیں جب سورج زرد ہو گیا ہو۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد نوافل وغیرہ جائز ہیں منع صرف اس وقت میں جب سورج طلوع ہو رہا ہو۔ اس کی وضاحت دیگر دلائل سے ہوتی ہے۔ مثلاً سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بـعـد الـعـصـر حتى تغرب الشمس وعن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس»
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور نماز صبح کے بعد حتیٰ، کہ سورج طلوع ہو جائے۔ [صـحـيـح بـخـاري: 588 صـحـيـح مـسـلـم: 825]
اس حدیث میں اور دوسری احادیث میں وارد ہونے والی نہی (ممانعت) کو سورج زرد ہونے کے بعد کے وقت پر محمول کریں گے، اس پر قرینہ یہ ہے که سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«ان النبى صلى الله عليه وسلم نهـى عـن الـصـلاة بـعـد العصر الا والشمس مرتفعة»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد (نفلی) نماز پڑھنے سے منع فرما دیا، ہاں! جب سورج بلند ہو، (تو پڑھ سکتے ہیں)۔ [مسند الامام أحمد: 80/ 1- 81، 129، 141، سنن ابی داود: 1274 وسنده حسن التريب: 187/2]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ولا تـصـلـوا عند طلوع الشمس ولا عند غروبها، فانها تطلع و تغرب على قرنى الشيطان، وصلو ابين ذلك ما شئتم»
تم سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے، اس کے درمیان جتنی چاہو نماز پڑھو۔ [مسند ابی یعلی: 4612، وسنده حسن]
بے شمار صحابہ کرام ﷡ سے بعد نماز عصر نوافل پڑھنا ثابت ہیں مثلاً: عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں:
«كنا مع على رضي الله عنه فى سفر فصلٰى بنا العصر ركعتين، ثم دخل فسطاطه و أنا أنظر، فصلى ركعتين»
ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ ﷜ نے ہمیں عصر کی دورکعتیں پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں داخل ہو کر دورکعتیں ادا کیں، میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ [السنن الکبری للبیهقی: 459/ 2، وسنده حسن]
طاؤس بن کیسان تابعی کہتے ہیں:
´´ورخص في الركعتين بعد العصر``
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کی رخصت دی ہے۔ [سنن ابی داود: 1284 وسنده حسن]
امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا، وہ عصر کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتی تھیں اور ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھ کر چار پڑھتی تھیں۔ [الاوسـط لابـن الـمـنـذر: 394/2، وسنده حسن] وغيره
بعض اہل علم کا کہنا کہ عصر کے بعد دو رکعات پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا یہ انتہائی کمزور بات ہے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر خاصہ ہوتا تو صحابہ کرام عصر کے بعد نوافل بھی ادا نہ کرتے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 769