مسند الحميدي
أَحَادِيثُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 792
حدیث نمبر: 792
792 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: «لَيْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلَي أَذَيً يَسْمَعَهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، يَدْعُونَ لَهُ نِدًّا ثُمَّ هُوَ يَرْزُقُهُمْ وَيْعَافِيهِمْ» ، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَقِيلَ لَهُ: مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَكْذِبْ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، عَنْ أَبِي مُوسَي الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
792-سعید بن جبیر فرماتے ہیں: تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ اس کے شریک کو پکارتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ انہیں عافیت فراہم کرتا ہے۔
اعمش کہتے ہیں: سعید بن جبیر سے کہا گیا: اے عبداللہ! آپ نے یہ روایت کس سے سنی ہے؟ تو وہ بولے: میں غلط بیانی نہیں کروں گا، ابوعبدالرحمن سلمی نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6099، 7378، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2804، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 642، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7661، 11261، 11381، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19836 برقم: 19898 برقم: 19943، والبزار فى «مسنده» ، برقم: 3006، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20250 20273، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 3470»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:792  
792-سعید بن جبیر فرماتے ہیں: تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ اس کے شریک کو پکارتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی ان لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ انہیں عافیت فراہم کرتا ہے۔ اعمش کہتے ہیں: سعید بن جبیر سے کہا گیا: اے عبداللہ! آپ نے یہ روایت کس سے سنی ہے؟ تو وہ بولے: میں غلط بیانی نہیں کروں گا، ابوعبدالرحمن سلمی نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:792]
فائدہ:
اس حدیث میں صبر کے معنی علم و بردباری کے ہیں۔ اور حلیم اللہ تعالیٰ کی صفات میں ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی حلیم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو اپنی ذات کے ساتھ شریک کرنے والوں کی باتوں پر بھی صبر کرتا ہے۔
موجودہ دور میں کام الٹ نظر آتا ہے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور انھیں ناکام کرنے کی کرنے والوں کو بھی عطا فرماتا ہے۔
عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ پر کتنا بڑا الزام دیا کہ سیدہ مریم علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی بیوی اور سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا، اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ ان کو تندرستی اور فراوانی کے ساتھ رزق مہیا کرتا ہے۔ سبحان اللہ!
نیز اس سے معلوم ہوا کہ تندرستی اور رزق کی فراوانی اللہ تعالیٰ کی دو عظیم نعمتیں ہیں۔ ہرانسان کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ شرک، اکبر الکبائر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے معاف نہیں کرنا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 792