مسند الحميدي
أَحَادِيثُ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 795
حدیث نمبر: 795
795 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: ثنا جُنْدُبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ، قَالَ:" أَبْطَأَ جَبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَحْيِ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿ وَالضُّحَي وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَي مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَي﴾
795- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کچھ عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لے کر حاضر نہیں ہوئے تو مشرکین یہ کہنے لگے: سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کو چھوڑ دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى» چاشت کے وقت کی قسم ہے اور رات کی قسم ہے، جب وہ چھا جائے۔ تمہارے پروردگار نے نہ تو تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1124، 1125، 4950، 4951، 4983، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1797، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6565، 6566، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11617، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4795، 4796، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19098 برقم: 19103 برقم: 19106 برقم: 19108»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:795  
795- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کچھ عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لے کر حاضر نہیں ہوئے تو مشرکین یہ کہنے لگے: سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کو چھوڑ دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى» چاشت کے وقت کی قسم ہے اور رات کی قسم ہے، جب وہ چھا جائے۔ تمہارے پروردگار نے نہ تو تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:795]
فائدہ:
صحیح بخاری 1125 میں وضاحت ہے کہ قریش کی ایک عورت نے کہا: اس کے شیطان نے آنے میں دیر کر دی ہے، اس پر یہ آیات اتریں۔ اور صحیح بخاری 4850 میں مزید ایک اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو دو یا تین راتیں آپ تہجد کے لیے نہ اٹھ سکے۔ ان دنوں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد! مجھے امید ہے کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب دو تین دن سے آپ کے قریب نہیں آتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔
یہ عورت ابولہب کی بیوی تھی جس کا نام اور اء بنت حرب تھا اور یہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بہن تھی۔ اس کی کنیت ام جمیل تھی۔ سورۃ الحب میں میں اس نکمی کافر ہ بدکردار عورت کا ہی ذکر ہے۔ اسے ﴿حمالة الحطب﴾ سے اللہ تعالیٰ نے یاد کیا ہے۔
بطور فائدہ عرض ہے کہ اس واقعہ کی مثل ایک اور واقعہ بھی ہے جو ان دونوں میں پیش آیا۔ دونوں میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ ابولہب کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد کہہ کر مخاطب کیا اور جبرئیل امین کو شیطان کہا۔ معاذ اللہ۔ حالانکہ وہ خود شیطان تھی۔
انھی دنوں ایک عورت نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھی نے دیر کر دی ہے۔ [صحيح البخاري 4951]
دوسرا واقعہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہے جیسا کہ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [فتح الباري: 13/3]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ داعی کو اپنا مشن نہیں چھوڑنا چاہیے، چاہے لوگ اسے جو مرضی کہتے پھریں۔ آخر کامیابی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دینی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 795