مسند الحميدي
أَحَادِيثُ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 826
حدیث نمبر: 826
826 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا بَعْضُ أَصْحَابِنَا، عَنْ حَبِيبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ
826-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده فيه جهالة، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 941، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4060، 4061، 4062، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4360، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16976، 16977، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 19462 برقم: 19518، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33529، 33530، والطبراني فى «الصغير» برقم: 826»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:826  
826-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:826]
فائدہ:

① امام نووی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: لحد بنانا مستحب ہے کیونکہ صحابہ کرام ﷡کے اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد ہی کھودی گئی تھی۔ [صحيح مسلم الجنائز: 966]
لہٰذا جہاں لحدبغلی قبر بن سکتی ہو وہاں لحد بنانا مستحب اور افضل ہے۔ البتہ شق صندوقی قبر بنانا جائز ہے۔
② لحد یعنی بغلی قبر سے مراد یہ ہے کہ پہلے گڑھا کھودا جائے، پھر اس میں ایک طرف میت کے لیے جگہ بنا کر اس میں میت کو رکھا جائے اور شق کا مطلب یہ ہے کہ بڑا گڑھا کھود کر اس کے درمیان میں میت کے لیے نسبتاً چھوٹا گڑھا کھودا جائے۔ دونوں طرح قبر بنانا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دونوں طریقوں پر عمل ہوتا تھا۔ دوسروں کے لیے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے لیے جائز نہیں۔ غالبا اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں میں زیادہ شق کا رواج ہے اور مسلمان زیادہ تر لحد بناتے ہیں۔ (واللہ اعلم)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 827