مسند الحميدي
أَحَادِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 832
حدیث نمبر: 832
832 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: مُطِرَ النَّاسُ عَلَي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَبُّكُمُ اللَّيْلَةَ؟ قَالَ: مَا أَنْعَمْتُ عَلَي عِبَادِي مَنْ نِعْمَةٍ إِلَّا أَصْبَحَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بِهَا كَافِرِينَ، يَقُولُونَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَأَمَّا مَنْ آمَنَ بِي وَحَمِدَنِي عَلَي سُقْيَايَ فَذَلِكَ الَّذِي آمَنَ بِي، وَكَفَرَ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ الَّذِي آمَنَ بِالْكَوْكَبِ، وَكَفَرَ بِي أَوْ كَفَرَ نِعْمَتِي". قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ مَعْمَرٌ حَدَّثَنَا أَوَّلًا عَنْ صَالِحٍ، ثُمَّ سَمِعْنَاهُ مِنْ صَالِحٍ"
832- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ایک مرتبہ رات کے وقت بارش ہوگئی۔ اگلے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو؟ تمہارے پروردگار نے گزشتہ رات کیا ارشاد فرمایا ہے؟ اس نے فرمایا ہے: میں جب بھی اپنے بندوں کوکوئی نعمت عطا کرتا ہوں، تو ان میں سے کچھ لوگ کافر ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: ہم پر فلاں، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے۔ لیکن جو شخص مجھ پر ایمان رکھتا ہے، تو وہ میرے سیراب کرنے کی وجہ سے میری حمد بیان کرتا ہے، تو یہ وہ شخص ہے، جو مجھ پرا یمان رکھتا ہے اور ستاروں کا انکار کرتا ہے، لیکن جو شخص یہ کہتا ہے، فلاں، فلاں، ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے، تو وہ ستاروں پرایمان رکھتا ہے، اور میرا انکار کرتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میری نعمت کا انکار کرتا ہے۔
سفیان کہتے ہیں: معمرنے یہ روایت پہلے صالح کے حوالے سے ہمیں سنائی تھی۔ پھر ہم نے یہ روایت صالح کی زبانی سن لی۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 846، 1038، 4147، 7503، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 71، ومالك فى «الموطأ» برقم: 653، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 188، 6132، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1524، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3906، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3080، 6544، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17309 برقم: 17323»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:832  
832- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ایک مرتبہ رات کے وقت بارش ہوگئی۔ اگلے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو؟ تمہارے پروردگار نے گزشتہ رات کیا ارشاد فرمایا ہے؟ اس نے فرمایا ہے: میں جب بھی اپنے بندوں کوکوئی نعمت عطا کرتا ہوں، تو ان میں سے کچھ لوگ کافر ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں: ہم پر فلاں، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے۔ لیکن جو شخص مجھ پر ایمان رکھتا ہے، تو وہ میرے سیراب کرنے کی وجہ سے میری حمد بیان کرتا ہے، تو یہ وہ شخص ہے، جو مجھ پرا یمان رکھتا ہے اور ستاروں کا انکار کرتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:832]
فائدہ:
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بارش برسنے میں ستارے کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے بارش ہوتی ہے تو یہ شرک ہے کیونکہ بارش برسانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اگر وہ ستاروں کے طلوع ہونے کو علامت خیال کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں، یہ علامت بھی چونکہ حتمی نہیں اس لیے یہ انداز مناسب نہیں۔ اس سے بچ جانا ہی اصل ہے۔
محکمہ موسمیات والے ہوا کے دباؤ اور نمی وغیرہ سے اندازہ لگا کر پیش گوئی کرتے ہیں اور وہ بھی امکان کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ ایک الگ صورت ہے۔ ستاروں پر ان کا اعتماد نہیں ہوتا۔ لیکن اس صورت میں بھی انداز تکلم جاہلیت والا نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی یعنی لفظی قباحت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 832