صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
128. بَابُ يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ:
باب: سجدہ کے لیے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے۔
حدیث نمبر: 804
قَالَا: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، يَقُولُ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ وَأَهْلُ الْمَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ".
ابوبکر اور ابوسلمہ دونوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک (رکوع سے) اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد‏» کہہ کر چند لوگوں کے لیے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے۔ یا اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو (کفار سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر قحط مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا۔ ان دنوں پورب والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1074  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
1074۔ اردو حاشیہ:
➊ الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔
➋ یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1007]
➌ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔
➍ قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہو گی۔
➎ کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔
➏ قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560] نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: «يُؤَمِّنُ مَن خَلفَه» آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔ [سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1244  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قنوت نازلہ آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔

(2)
اس میں امام بلند آواز سے مناسب دعایئں کرتا ہے۔

(3)
قنوت نازلہ میں مظلوم مسلمانوں کا نام لے کر ان کے حق میں اور کافروں کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی جا سکتی ہے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾ حدیث: 4560 وصحیح المسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات۔
۔
۔
، حدیث: 675)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 804  
804. ان دونوں (ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہتے اور کچھ لوگوں کے لیے ان کا نام لے کر دعا کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاس بن ابو ربیعہ اور ناتواں مسلمانوں کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے عہد میں قحط پڑا تھا۔ اس وقت اہل مشرق سے قبیلہ مضر کے لوگ آپ کے دشمن تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:804]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں بددعا کسی مستحق حقیقی کا نام لے کر بھی کی جاسکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 804   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:804  
804. ان دونوں (ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہتے اور کچھ لوگوں کے لیے ان کا نام لے کر دعا کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاس بن ابو ربیعہ اور ناتواں مسلمانوں کو (کفار کے ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی گرفت سخت کر دے اور انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے عہد میں قحط پڑا تھا۔ اس وقت اہل مشرق سے قبیلہ مضر کے لوگ آپ کے دشمن تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:804]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس طریقۂ نماز کو حضرت ابو ہریرہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ قرار دیا ہے بلکہ قبل ازیں ایک حدیث میں بعینہٖ اس کیفیت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف صراحت کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے کہ خود آپ نے اس انداز سے نماز ادا کی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 789)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
يهوي بالتكبير حين مسجد جبکہ روایت کے الفاظ اس کے برعکس ہیں، یعنی يكبر حين يهوي ساجدا، چونکہ یہاں سے سجدے کا بیان شروع ہوتا ہے اور امام بخاری ؒ نے اللہ أکبر کہنے اور سجدے کے لیے جھکنے کو لازم ملزوم قرار دیا ہے، یعنی اللہ أکبر کو سجدے کے لیے جھکتے ہی شروع کر دیا جائے، پھر اسے پوری حرکت انتقال پر پھیلا دیا جائے جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے:
اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ اور جھکنا اللہ أکبر کے ساتھ ہو، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اللہ أکبر جھکنے کے ساتھ ساتھ ہو۔
اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اکمال و تکمیل کے پیش نظر دوسری حدیث ذکر کی ہے۔
باب کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قنوت کا محل رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے، نیز نماز میں کسی کا نام لے کر دعا یا بددعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ بعض فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 377/2)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم آئندہ حدیث:
(4560)
میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 804