مسند الحميدي
أَحَادِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 1297
حدیث نمبر: 1298
1298 - أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَي قَالَ: ثنا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قُتِلَ أَبِي يَوْمَ أُحُدٍ، فَجِيءَ بِهِ إِلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ، فَنَهَانِي قَوْمِي، وَأُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ، وَيَنْهَانِي قَوْمِي، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ بِهِ، فَسَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ، فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟» ، قَالُوا: ابْنَةُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَبْكُوا، أَوْ فَلِمَ تَبْكِي؟ فَمَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّي رُفِعَ»
1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: عمرو کی صاحبزادی ہے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) عمرو کی بہن ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ نہ روؤ (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تم کیوں رورہی ہو؟ فرشتوں نے اس کے اٹھائے جانے تک مسلسل اپنے پروں کے ذریعے اس پر سایہ کیا ہوا تھا۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1244، 1293، 2816، 4080، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2471، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7021، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1841، 1844، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1981، 1984، 8190، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6814، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14407، 14516، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1817، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2021»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1298  
1298- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: غزوہ احد کے موقع پر میرے والد شہید ہوگئے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا گیا ان کی میت کی بت حرمتی کی گئی تھی میں نے ان چہرے سے کپڑا ہٹا نے کا ارادہ کیا، تو میری قوم کے افراد نے مجھے منع کردیا میں ان کے منہ سے کپڑا ہٹانا چاہ رہا تھا، لیکن میری قوم کے افرا مجھے منع کررہے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے اٹھا لیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے کی آواز سنی تو دریافت کیا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: عمرو کی صاحبزاد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1298]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہید پر رونا نہیں چاہیے، اللہ تعالیٰ ٰ نے بہن اور بھائی میں فطری محبت رکھی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہم تک دین پہنچایا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1297