موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ -- کتاب: باجماعت نماز کے بیان میں
3. بَابُ إِعَادَةِ الصَّلَاةِ مَعَ الْإِمَامِ
امام کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 296
وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنِّي أُصَلِّي فِي بَيْتِي ثُمَّ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ أَفَأُصَلِّي مَعَهُ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: نَعَمْ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَيَّتَهُمَا أَجْعَلُ صَلَاتِي؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : " أَوَ ذَلِكَ إِلَيْكَ، إِنَّمَا ذَلِكَ إِلَى اللَّهِ، يَجْعَلُ أَيَّتَهُمَا شَاءَ"
حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہوں، پھر امام کے ساتھ جماعت کو پاتا ہوں، تو کیا میں پھر امام کے ساتھ نماز پڑھوں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: ہاں۔ اس شخص نے کہا: پس پھر میں دو نمازوں میں سے کون سی نماز کو فرض سمجھوں، اور کس کو نفل سمجھوں؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا کہ تجھ کو اس سے کیا مطلب؟ یہ تو اللہ جل جلالہُ کا اختیار ہے، جس کو چاہے فرض کر دے جس کو چاہے نفل کر دے۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3709، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 1880، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم:1071، وابن المنذر فى الاؤسط برقم: 407/2، شركة الحروف نمبر: 278، فواد عبدالباقي نمبر: 8 - كِتَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ-ح: 9»