امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر بیس دینار اس قدر وزن میں ہلکے ہوں کہ ان کی قیمت پوری بیس دینار کو نہ پہنچے تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے، اگر بیس سے زیادہ ہوں اور قیمت اُن کی پورے بیس دینار کی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے، اور بیس دینار سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
کہا مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح اگر دو سو درہم اسی وزن میں کم ہوں کہ اُن کی قیمت پورے دو سو درہم کو نہ پہنچے تو اُن میں بھی زکوٰۃ نہیں ہے، البتہ اگر دو سو سے زیادہ ہوں اور پورے پورے دو سو درہموں کے برابر ہو جائیں تو زکوٰۃ واجب ہے، لیکن اگر یہ دینار اور درہم جو وزن میں ہلکے ہوں، پورے دینار اور درہم کے برابر جپتے ہوں تو اُن میں زکوٰۃ واجب ہے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص کے پاس ایک سو ساٹھ درہم پورے ہیں، اور اس کے شہر میں آٹھ درہ کو ایک دینار ملتا ہے، تو زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، کیونکہ زکوٰۃ جب واجب ہوتی ہے جب اس کے پاس بیس دینار یا دو سو درہم موجود ہوں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس پانچ دینار تھے، سو اس نے اس میں تجارت کی اور سال ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ اس مقدار کو پہنچ گئے جتنے میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس کو زکوٰۃ دینا پڑے گی، اگرچہ سال کے ختم ہونے کے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد وہ دینار اس مقدار کو پہنچے ہوں، پھر اس میں زکوٰۃ نہ ہوگی جب تک دوسرا سال ختم نہ ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دس دینار تھے، اس میں سے اس نے تجارت کی اور سال گزرتے گزرتے وہ بیس دینار پہنچ گئے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، یہ نہ ہوگا کہ وہ انتظار کرے ایک سال گزرنے کا جب سے بیس دینار کو پہنچے ہیں۔ کیونکہ سال اس پر جب گزرا تو اس کے پاس بیس دینار تھے، پھر دوبارہ اس میں زکوٰۃ نہ ہوگی، جب تک دوسرا سال نہ گزرے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ہمارے نزدیک یہ امر اجماعی ہے کہ غلاموں کی مزدوری اور کرایہ میں اور مکاتب کے بدل کتاب میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر، جب تک مالک کے قبضے میں یہ چیزیں نہ جائیں اور اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: سونا اور چاندی میں اگر کئی حصہ دار ہوں تو جس کا حصہ بیس دینار یا دو سو درہم تک پہنچے گا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، اور جس کا حصہ اس سے کم ہوگا اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، اور جو سب کے حصے نصاب ہوں لیکن کسی کا حصہ زیادہ کسی کا کم ہو تو ہر ایک سے زکوٰۃ اس کے حصے کے موافق لی جائے گی بشرطیکہ ہر ایک کا حصہ نصاب کو پہنچے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“