موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الزَّكَاةِ -- کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
8. بَابُ الزَّكَاةِ فِي الدَّيْنِ
دَین کی زکوٰۃ کا بیان
قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا فِي الدَّيْنِ، أَنَّ صَاحِبَهُ لَا يُزَكِّيهِ حَتَّى يَقْبِضَهُ، وَإِنْ أَقَامَ عِنْدَ الَّذِي هُوَ عَلَيْهِ سِنِينَ ذَوَاتِ عَدَدٍ، ثُمَّ قَبَضَهُ صَاحِبُهُ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِ إِلَّا زَكَاةٌ وَاحِدَةٌ، فَإِنْ قَبَضَ مِنْهُ شَيْئًا لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ سِوَى الَّذِي قُبِضَ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَإِنَّهُ يُزَكَّى مَعَ مَا قَبَضَ مِنْ دَيْنِهِ ذَلِكَ، قَالَ: وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ نَاضٌّ غَيْرُ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ، وَكَانَ الَّذِي اقْتَضَى مِنْ دَيْنِهِ لَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ فِيهِ، وَلَكِنْ لِيَحْفَظْ عَدَدَ مَا اقْتَضَى فَإِنِ اقْتَضَى بَعْدَ ذَلِكَ عَدَدَ مَا تَتِمُّ بِهِ الزَّكَاةُ مَعَ مَا قَبَضَ قَبْلَ ذَلِكَ فَعَلَيْهِ فِيهِ الزَّكَاةُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک اس حکم میں اختلاف نہیں کہ قرض کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے جب تک وہ وصول نہ ہو جائے۔ سو اگر قرض قرضدار پر کئی برس تک رہا، پھر وصول ہوا تو ایک ہی سال کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر جتنا قرض وصول ہوا ہے وہ نصاب سے کم ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر اس صورت میں کہ اس شخص کے پاس اور مال بھی ہو، سو اس میں ملا کر اس کی بھی زکوٰۃ دے، اگر اس کے پاس اور کوئی مال نقد نہ ہو لیکن مدیوں پر اور قرض باقی ہو تو ابھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی لیکن جس قدر وصول ہوا ہے اس کو یاد رکھے۔ بعد اس کے اگر اتنا وصول ہوا کہ نصاب پورا ہوگیا اس وقت زکوٰۃ لازم ہوگی۔ اگر اس نے اس مال کو جو پیشتر وصول ہوا تھا تلف کر دیا تب بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر: 544، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 19»