سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آئے میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ہانڈی پھونک رہا تھا اپنے ساتھیوں کی، اور میرے سر اور داڑھی کے بال جوؤں سے بھر گئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی تھام کر فرمایا: ”ان بالوں کو منڈوا ڈال اور تین روزے رکھ، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے واسطے کچھ نہیں ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی شخص «أذي» کی جزاء نہ دے جب تک قصور نہ کرے، کیونکہ قصور کرنے سے کفارہ واجب ہوتا ہے، اور اس کو اختیار ہے کہ جزاء قربانی سے دے یا روزے سے یا صدقہ سے، مکہ میں خواہ کسی اور شہر میں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہر محرم کو درست نہیں کہ اپنے بال نوچے یا منڈوائے یا کم کرائے جب تک احرام نہ کھولے، مگر اس صورت میں کہ اس کے سر میں کوئی ایذاء ہو، تو فدیہ لازم ہو گا، جیسا الله جل جلالہُ نے حکم کیا، اور محرم کو درست نہیں کہ اپنے ناخن کترے یا جوئیں مارے یا سر سے جوں نکال کر زمین پر ڈالے یا اپنے بدن یا کپڑے سے جوں نکالے، اگر ایسا کرے تو ایک مٹھی اناج کی للہ دے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے اپنی ناک کے بال اکھاڑے، یا بغل کے، یا بدن پر نورہ لگایا، یا سر میں زخم ہوا اور ضرورت کی وجہ سے سرمنڈوایا، یا گدی کے بال منڈوائے پچھنے لگانے کے واسطے احرام میں، اگر بھولے سے یا نادانی سے یہ کام کرے تو ان سب صورتوں میں اس پر فدیہ ہے، اور محرم کو درست نہیں کہ پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے۔