سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کوفہ میں: ایک عورت سے نکاح کیا، پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا، اب اس کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ درست ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور تحقیق کی، معلوم ہوا کہ بی بی کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ بی بی سے صحبت کرے یا نہ کرے، اور صحبت کی قید ربائب میں ہے۔ جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ کو لوٹے، پہلے اس شخص کے مکان پر گئے جس کو مسئلہ بتایا تھا، اس سے کہا: اس عورت کو چھوڑ دے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13903، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16264، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10811، فواد عبدالباقي نمبر: 28 - كِتَابُ النِّكَاحِ-ح: 23»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے، پھر اس کی ماں سے نکاح کیا اور صحبت کی، تو دونوں ماں بیٹی اس کو حرام ہو جائیں گئی ہمیشہ ہمیشہ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: البتہ اگر ماں سے صحبت نہ کرے تو اس کو چھوڑ دے، اور بیٹی اس کی حلال رہے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک شخص نکاح کرے ایک عورت سے، پھر نکاح کرے اس کی ماں سے اور صحبت کرے اس سے، تو ماں کی ماں بھی حرام ہو جائے گی اور ماں حرام رہے گی اس شخص کے باپ اور بیٹے پر۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: زنا سے حرمت ثابت نہ ہوگی۔ یعنی اگر کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی ماں اور بیٹی حرام نہ ہوگی، کیونکہ دارقطنی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس واسطے کہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا: ”حرام ہیں تم پر تمہاری مائیں تہاری بیبیوں کی۔“ تو حرام کیا اللہ نے ماؤں کو، ان کی بیبیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے، نہ زنا سے، تو جب نکاح کیا جائے گا کسی عورت سے اگرچہ وہ ناجائز ہو اس سے حرمت ثابت ہوگی، مگر زنا سے نہ ہوگی۔