موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُكَاتَبِ -- کتاب: مکاتب کے بیان میں
9. بَابُ الشَّرْطِ فِي الْمُكَاتَبِ
مکاتب پر شرط لگانے کا بیان
قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِطُ عَلَى مُكَاتَبِهِ أَنَّكَ لَا تُسَافِرُ وَلَا تَنْكِحُ وَلَا تَخْرُجُ مِنْ أَرْضِي إِلَّا بِإِذْنِي: فَإِنْ فَعَلْتَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ بِغَيْرِ إِذْنِي فَمَحْوُ كِتَابَتِكَ بِيَدِي. قَالَ مَالِكٌ: لَيْسَ مَحْوُ كِتَابَتِهِ بِيَدِهِ إِنْ فَعَلَ الْمُكَاتَبُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. وَلْيَرْفَعْ سَيِّدُهُ ذَلِكَ إِلَى السُّلْطَانِ وَلَيْسَ لِلْمُكَاتَبِ أَنْ يَنْكِحَ وَلَا يُسَافِرَ وَلَا يَخْرُجَ مِنْ أَرْضِ سَيِّدِهِ. إِلَّا بِإِذْنِهِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ أَوْ لَمْ يَشْتَرِطْهُ. وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ يُكَاتِبُ عَبْدَهُ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَلَهُ أَلْفُ دِينَارٍ أَوْ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَيَنْطَلِقُ فَيَنْكِحُ الْمَرْأَةَ فَيُصْدِقُهَا الصَّدَاقَ الَّذِي يُجْحِفُ بِمَالِهِ وَيَكُونُ فِيهِ عَجْزُهُ فَيَرْجِعُ إِلَى سَيِّدِهِ عَبْدًا لَا مَالَ لَهُ. أَوْ يُسَافِرُ فَتَحِلُّ نُجُومُهُ وَهُوَ غَائِبٌ فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ وَلَا عَلَى ذَلِكَ كَاتَبَهُ. وَذَلِكَ بِيَدِ سَيِّدِهِ إِنْ شَاءَ أَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے کہ سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے، اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کر دینا میرے اختیار میں ہوگا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہوگا، اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے، اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے، وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہو سکتی، مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے، خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے اُن دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر، پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے، نہ اس کے پاس مال ہوتا ہے نہ اور کچھ، اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے، یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آ جاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا، تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے، اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے، بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے، چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 12»