امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کر لے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا، نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو، معلوم ہو یا نہ معلوم ہو، اگرچہ وہ مال اس زرِ ثمن سے زیادہ ہو جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے، کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰة نہیں ہے، وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا، اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہوگی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہو جائے گا، اور اگر یہ غلام آزاد ہو جاتا یا مکاتب، تو اس کا مال اسی کو ملتا، اگر مفلس ہو جاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا، اس کے مولیٰ سے مؤاخذہ نہ ہوتا۔