موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
18. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُرَاطَلَةِ
مراطلہ کا بیان
حدیث نمبر: 1341
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ ، أَنَّهُ رَأَى سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ " يُرَاطِلُ الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، فَيُفْرِغُ ذَهَبَهُ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ وَيُفْرِغُ صَاحِبُهُ الَّذِي يُرَاطِلُهُ ذَهَبَهُ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ الْأُخْرَى، فَإِذَا اعْتَدَلَ لِسَانُ الْمِيزَانِ أَخَذَ وَأَعْطَى" .
حضرت یزید بن عبداللہ بن قسیط نے کہا: سعید بن مسیّب کو دیکھا جب سونے کو سونے کے بدلے میں بیچتے تو اپنے سونے کو ایک پلہ میں رکھتے اور دوسرا شخص اپنے سونے کو دوسرے پلے میں رکھتا، جب ترازو کا کانٹا برابر ہو جاتا تو دوسرے کا سونا لے لیتے اور اپنا سونا دے دیتے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْوَرِقِ بِالْوَرِقِ مُرَاطَلَةً: أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ أَنْ يَأْخُذَ أَحَدَ عَشَرَ دِينَارًا بِعَشَرَةِ دَنَانِيرَ يَدًا بِيَدٍ إِذَا كَانَ وَزْنُ الذَّهَبَيْنِ سَوَاءً عَيْنًا بِعَيْنٍ، وَإِنْ تَفَاضَلَ الْعَدَدُ وَالدَّرَاهِمُ أَيْضًا فِي ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ. قَالَ مَالِك: مَنْ رَاطَلَ ذَهَبًا بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقًا بِوَرِقٍ، فَكَانَ بَيْنَ الذَّهَبَيْنِ فَضْلُ مِثْقَالٍ فَأَعْطَى صَاحِبَهُ قِيمَتَهُ مِنَ الْوَرِقِ أَوْ مِنْ غَيْرِهَا، فَلَا يَأْخُذُهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ قَبِيحٌ وَذَرِيعَةٌ إِلَى الرِّبَا، لِأَنَّهُ إِذَا جَازَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الْمِثْقَالَ بِقِيمَتِهِ، حَتَّى كَأَنَّهُ اشْتَرَاهُ عَلَى حِدَتِهِ، جَازَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الْمِثْقَالَ بِقِيمَتِهِ مِرَارًا، لِأَنْ يُجِيزَ ذَلِكَ الْبَيْعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ صَاحِبِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں، اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار، جب نقداً نقد ہوں اور وزن برابر ہو، اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں، ایسا ہی دراہم کا حکم ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
قَالَ مَالِك: وَلَوْ أَنَّهُ بَاعَهُ ذَلِكَ الْمِثْقَالَ مُفْرَدًا لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَأْخُذْهُ بِعُشْرِ الثَّمَنِ الَّذِي أَخَذَهُ بِهِ، لِأَنْ يُجَوِّزَ لَهُ الْبَيْعَ، فَذَلِكَ الذَّرِيعَةُ إِلَى إِحْلَالِ الْحَرَامِ وَالْأَمْرُ الْمَنْهِيُّ عَنْهُ. قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يُرَاطِلُ الرَّجُلَ، وَيُعْطِيهِ الذَّهَبَ الْعُتُقَ الْجِيَادَ وَيَجْعَلُ مَعَهَا تِبْرًا ذَهَبًا غَيْرَ جَيِّدَةٍ، وَيَأْخُذُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَهَبًا كُوفِيَّةً مُقَطَّعَةً، وَتِلْكَ الْكُوفِيَّةُ مَكْرُوهَةٌ عِنْدَ النَّاسِ، فَيَتَبَايَعَانِ ذَلِكَ مِثْلًا بِمِثْلٍ: إِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے، یا چاندی کو چاندی کےبدلے میں، اور ایک طرف کا سونا ایک مثقال زیادہ ہو اس کے بدلے میں دوسرا شخص چاندی یا اور کچھ دے کر سونا لے لے تو یہ درست نہیں، کیونکہ یہ ذریعہ ہے سود کا، کیونکہ اگر علیحدہ اس قدر سونا ہوتا تو کبھی چاندی کے بدلے میں نہ دیتا، یہاں صرف اس واسطے دیا کی یہ بیع درست ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»
. قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنَّ صَاحِبَ الذَّهَبِ الْجِيَادِ أَخَذَ فَضْلَ عُيُونِ ذَهَبِهِ فِي التِّبْرِ الَّذِي طَرَحَ مَعَ ذَهَبِهِ، وَلَوْلَا فَضْلُ ذَهَبِهِ عَلَى ذَهَبِ صَاحِبِهِ لَمْ يُرَاطِلْهُ صَاحِبُهُ بِتِبْرِهِ ذَلِكَ إِلَى ذَهَبِهِ الْكُوفِيَّةِ فَامْتَنَعَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ ثَلَاثَةَ أَصْوُعٍ مِنْ تَمْرٍ عَجْوَةٍ بِصَاعَيْنِ وَمُدٍّ مِنْ تَمْرٍ كَبِيسٍ، فَقِيلَ لَهُ: هَذَا لَا يَصْلُحُ، فَجَعَلَ صَاعَيْنِ مِنْ كَبِيسٍ وَصَاعًا مِنْ حَشَفٍ يُرِيدُ أَنْ يُجِيزَ بِذَلِكَ بَيْعَهُ، فَذَلِكَ لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُ الْعَجْوَةِ لِيُعْطِيَهُ صَاعًا مِنَ الْعَجْوَةِ بِصَاعٍ مِنْ حَشَفٍ، وَلَكِنَّهُ إِنَّمَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ لِفَضْلِ الْكَبِيسِ، أَوْ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: بِعْنِي ثَلَاثَةَ أَصْوُعٍ مِنَ الْبَيْضَاءِ بِصَاعَيْنِ وَنِصْفٍ مِنْ حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ، فَيَقُولُ: هَذَا لَا يَصْلُحُ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَيَجْعَلُ صَاعَيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ وَصَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، يُرِيدُ أَنْ يُجِيزَ بِذَلِكَ الْبَيْعَ فِيمَا بَيْنَهُمَا، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيُعْطِيَهُ بِصَاعٍ مِنْ شَعِيرٍ صَاعًا مِنْ حِنْطَةٍ بَيْضَاءَ لَوْ كَانَ ذَلِكَ الصَّاعُ مُفْرَدًا، وَإِنَّمَا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ لِفَضْلِ الشَّامِيَّةِ عَلَى الْبَيْضَاءِ، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ، وَهُوَ مِثْلُ مَا وَصَفْنَا مِنَ التِّبْرِ. قَالَ مَالِك: فَكُلُّ شَيْءٍ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ وَالطَّعَامِ كُلِّهِ، الَّذِي لَا يَنْبَغِي أَنْ يُبَاعَ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُجْعَلَ مَعَ الصِّنْفِ الْجَيِّدِ مِنَ الْمَرْغُوبِ فِيهِ، الشَّيْءُ الرَّدِيءُ الْمَسْخُوطُ لِيُجَازَ الْبَيْعُ وَلِيُسْتَحَلَّ بِذَلِكَ مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِي لَا يَصْلُحُ إِذَا جُعِلَ ذَلِكَ مَعَ الصِّنْفِ الْمَرْغُوبِ فِيهِ، وَإِنَّمَا يُرِيدُ صَاحِبُ ذَلِكَ أَنْ يُدْرِكَ بِذَلِكَ فَضْلَ جَوْدَةِ مَا يَبِيعُ، فَيُعْطِي الشَّيْءَ الَّذِي لَوْ أَعْطَاهُ وَحْدَهُ لَمْ يَقْبَلْهُ صَاحِبُهُ وَلَمْ يَهْمُمْ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا يَقْبَلُهُ مِنْ أَجْلِ الَّذِي يَأْخُذُ مَعَهُ لِفَضْلِ سِلْعَةِ صَاحِبِهِ عَلَى سِلْعَتِهِ، فَلَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ مِنَ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ وَالطَّعَامِ أَنْ يَدْخُلَهُ شَيْءٌ مِنْ هَذِهِ الصِّفَةِ، فَإِنْ أَرَادَ صَاحِبُ الطَّعَامِ الرَّدِيءِ أَنْ يَبِيعَهُ بِغَيْرِهِ فَلْيَبِعْهُ عَلَى حِدَتِهِ، وَلَا يَجْعَلُ مَعَ ذَلِكَ شَيْئًا، فَلَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص کھرا سونا رکھ کر ایک ڈلا کھوٹے سونے کا بھی اس کے ساتھ رکھ دے اور دوسرے شخص سے اس کے ہموزن متوسط سونا خریدے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ کھرے سونے والے نے کھوٹا سونا ملا کر اپنا نقصان دفع کیا، اگر اس کا سونا عمدہ نہ ہوتا تو متوسط سونے والا اپنا سونا کاہے کو دیتا جب اس میں کھوٹا سونا ملا ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے ایک شخص نے چاہا کہ تین صاع کھجور کے سوا دو صاع کبیس کھجور دے کر خریدے، جب اس سے کہا گیا یہ بیع جائز نہیں، اس نے دوصاع کبیس کے اور ایک صاع خراب کھجور کے دے کر تین صاع عجوہ کے خریدے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اگر الگ بیچتا تو کبھی ایک صاع عجوہ کے بدلے میں ایک صاع خراب کھجور نہ لیتا، یہاں پر کبیس کی وجہ سے اس نے لے لیا۔ اس کی مثال یہ بھی ہے کہ ایک شخص تین صاع متوسط گیہوں کی اڑھائی صاع عمده گیہوں کے بدلے میں خریدنا چاہے، جب اس سے کہا گیا: یہ درست نہیں تو اس نے عمدہ گیہوں کے دوصاع کے ساتھ ایک صاع جو ملا دیئے تاکہ متوسط تین صاع گیہوں کی بیع درست ہو جائے، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اگر الگ بیچتا تو کبھی ایک صاع جو کے بدلے میں ایک صاع متوسط گیہوں کے نہ دیتا۔ حاصل یہ ہے کہ سونا چاندی یا کھانے کی چیزیں جن کو برابر بیچنا چاہیے اگر ان میں ایک طرف کھرا مال ہو اور دوسری طرف متوسط تو یہ درست نہیں، کھرے کے ساتھ تھوڑا کھوٹا ملا دے تاکہ یہ بیع جائز ہو، اور اپنے گھر کے مال کی زیادتی کھوٹ ملانے کی وجہ سے رفع ہو جائے، اور دوسرا شخص اس کھوٹ کو اس وجہ سے لے کہ کھرا مال جو اس کے مال سے بہتر ہے اس کے ساتھ موجود ہے، اگر وہ کھرا اس کے ساتھ نہ ہوتا تو کبھی یہ شخص اپنے متوسط مال کو اس کھوٹ کے بدلے نہ دیتا، البتہ اگر کوئی شخص کھوٹے مال کو علیحدہ کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 39»