موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
23. بَابُ جَامِعِ بَيْعِ الطَّعَامِ
اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 1357
وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، كَانَ يَقُولُ: " لَا تَبِيعُوا الْحَبَّ فِي سُنْبُلِهِ حَتَّى يَبْيَضَّ" .
حضرت محمد بن سیرین کہتے تھے: مت بیچو دانوں کو بالی کے اندر جب تک پک نہ جائے۔

تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10294 والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 10617، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3412، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: مَنِ اشْتَرَى طَعَامًا بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِصَاحِبِهِ: لَيْسَ عِنْدِي طَعَامٌ، فَبِعْنِي الطَّعَامَ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ إِلَى أَجَلٍ، فَيَقُولُ صَاحِبُ الطَّعَامِ: هَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ قَدْ نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ حَتَّى يُسْتَوْفَى، فَيَقُولُ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِغَرِيمِهِ: فَبِعْنِي طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ حَتَّى أَقْضِيَكَهُ، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ طَعَامًا ثُمَّ يَرُدُّهُ إِلَيْهِ فَيَصِيرُ الذَّهَبُ الَّذِي أَعْطَاهُ ثَمَنَ الطَّعَامِ الَّذِي كَانَ لَهُ عَلَيْهِ، وَيَصِيرُ الطَّعَامُ الَّذِي أَعْطَاهُ مُحَلِّلًا فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَيَكُونُ ذَلِكَ إِذَا فَعَلَاهُ بَيْعَ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اناج خریدے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر، جب میعاد پوری ہو تو جس کے ذمہ اناج واجب ہے وہ کہے: میرے پاس اناج نہیں ہے، جو اناج میرے ذمہ ہے وہ میرے ہی ہاتھ بیچ ڈال اتنی میعاد پر۔ وہ شخص کہے: یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اناج بیچنے کو جب تک قبضے میں نہ آئے، جس کے ذمہ پر اناج ہے وہ کہے: اچھا تو کوئی اور اناج میرے ہاتھ بیچ ڈال میعاد پر، تاکہ میں اسی اناج کو تیرے حوالے کردوں، تو یہ درست نہیں، کیونکہ وہ شخص اناج دے کر پھیر لے گا، اور بائع مشتری کو جو قیمت دے گا وہ گویا مشتری کی ہوگی جو اس نے بائع کو دی، اور یہ اناج درمیان میں حلال کرنے والا ہوگا، تو گویا اناج کی بیع ہوگی قبل قبضے کے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ لَهُ عَلَى رَجُلٍ طَعَامٌ ابْتَاعَهُ مِنْهُ، وَلِغَرِيمِهِ عَلَى رَجُلٍ طَعَامٌ مِثْلُ ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَالَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِغَرِيمِهِ: أُحِيلُكَ عَلَى غَرِيمٍ لِي، عَلَيْهِ مِثْلُ الطَّعَامِ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ بِطَعَامِكَ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ، قَالَ مَالِكٌ: إِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ إِنَّمَا هُوَ طَعَامٌ ابْتَاعَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يُحِيلَ غَرِيمَهُ بِطَعَامٍ ابْتَاعَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَذَلِكَ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ سَلَفًا حَالًّا، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُحِيلَ بِهِ غَرِيمَهُ، لِأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِبَيْعٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زید نے عمرو سے غلہ خریدا، عمرو کا غلہ بکر کے اوپر آتا تھا، تو عمرو نے زید سے کہا: جس قدر غلہ تو نے مجھ سے خریدا ہے اسی قدر غلہ میرے بکر پر آتا ہے، میں تیرا سامنا بکر سے کرا دیتا ہوں تو اس سے لے لے، تو اگر عمرو نے زید کے ہاتھ غلہ کو یونہی بیچا تھا تو یہ حوالہ درست نہیں، کیونکہ اناج کی بیع قبل قبضے کے لازم آتی ہے۔ اگر عمرو نے زید سے سلم کی تھی اور میعاد گزرنے پر اس اناج کا حوالہ بکر پر کر دیا تو درست ہے، کیونکہ یہ بیع نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَحِلُّ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى لِنَهْيِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِالشِّرْكِ وَالتَّوْلِيَةِ وَالْإِقَالَةِ فِي الطَّعَامِ وَغَيْرِهِ. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اناج کی بیع قبل قبضے کے ممنوع ہے، مگر اہلِ علم نے اجماع کیا ہے کہ شرکت اور تولیہ اور اقالہ اناج وغیرہ میں درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ أَنْزَلُوهُ عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ، وَلَمْ يُنْزِلُوهُ عَلَى وَجْهِ الْبَيْعِ، وَذَلِكَ مِثْلُ الرَّجُلِ يُسَلِّفُ الدَّرَاهِمَ النُّقَّصَ، فَيُقْضَى دَرَاهِمَ وَازِنَةً فِيهَا فَضْلٌ، فَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ، وَيَجُوزُ وَلَوِ اشْتَرَى مِنْهُ دَرَاهِمَ نُقَّصًا بِوَازِنَةٍ، لَمْ يَحِلَّ ذَلِكَ، وَلَوِ اشْتَرَطَ عَلَيْهِ حِينَ أَسْلَفَهُ وَازِنَةً، وَإِنَّمَا أَعْطَاهُ نُقَّصًا لَمْ يَحِلَّ لَهُ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اس واسطے کہ اہلِ علم نے ان چیزوں میں رواج اور دستور کا اعتبار رکھا ہے، اور ان کو مثل بیع کے نہیں سمجھا۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ناقص کم وزن روپے دیئے پھر مسلم الیہ نے اس کو پورے وزن کے روپے ادا کردیئے تو یہ درست ہے، مگر ناقص روپوں کی بیع پورے وزن کے روپوں کے بدلے میں درست نہیں، اگر اس شخص نے سلم کرتے وقت ناقص کم وزن روپے دے کر پورے روپے لینے کی شرط کی تھی تو درست نہ ہوگا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُشْبِهُ ذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ، وَأَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا مِنَ التَّمْرِ، وَإِنَّمَا فُرِقَ بَيْنَ ذَلِكَ أَنَّ بَيْعَ الْمُزَابَنَةِ بَيْعٌ عَلَى وَجْهِ الْمُكَايَسَةِ، وَالتِّجَارَةِ، وَأَنَّ بَيْعَ الْعَرَايَا عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ لَا مُكَايَسَةَ فِيهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی نظیر یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا اور عرایا کی اجازت دی۔ وجہ یہ ہے کہ مزابنہ کا معاملہ تجارت اور ہو شیاری کے طور پر ہوتا ہے، اور عرایا بطورِ احسان اور سلوک کے ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَشْتَرِيَ رَجُلٌ طَعَامًا بِرُبُعٍ أَوْ ثُلُثٍ أَوْ كِسْرٍ مِنْ دِرْهَمٍ. عَلَى أَنْ يُعْطَى بِذَلِكَ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ. وَلَا بَأْسَ أَنْ يَبْتَاعَ الرَّجُلُ طَعَامًا بِكِسْرٍ مِنْ دِرْهَمٍ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ يُعْطَى دِرْهَمًا وَيَأْخُذُ بِمَا بَقِيَ لَهُ مِنْ دِرْهَمِهِ سِلْعَةً مِنَ السِّلَعِ. أَنَّهُ أَعْطَى الْكِسْرَ الَّذِي عَلَيْهِ، فِضَّةً. وَأَخَذَ بِبَقِيَّةِ دِرْهَمِهِ سِلْعَةً، فَهَذَا لَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ درست نہیں کہ چوتھائی یا تہائی درہم یا اور کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے اس شرط پر کہ اس چوتھائی یا تہائی یا کسر کے عوض میں اناج دے گا وعدے پر، البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ چوتھائی یا تہائی درہم یا کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے وعدے پر، جب وعدہ گزرے تو ایک درہم حوالے کردے اور باقی کے بدلے میں کوئی اور چیز خرید کر لے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَلَا بَأْسَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ عِنْدَ الرَّجُلِ دِرْهَمًا، ثُمَّ يَأْخُذُ مِنْهُ بِرُبُعٍ أَوْ بِثُلُثٍ أَوْ بِكِسْرٍ مَعْلُومٍ سِلْعَةً مَعْلُومَةً، فَإِذَا لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ سِعْرٌ مَعْلُومٌ، وَقَالَ الرَّجُلُ: آخُذُ مِنْكَ بِسِعْرِ كُلِّ يَوْمٍ، فَهَذَا لَا يَحِلُّ لِأَنَّهُ غَرَرٌ يَقِلُّ مَرَّةً، وَيَكْثُرُ مَرَّةً، وَلَمْ يَفْتَرِقَا عَلَى بَيْعٍ مَعْلُومٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں کچھ قباحت نہیں کسی کے پاس ایک درہم رکھوائے پھر تہائی یا چوتھائی یا کسر کے بدلے میں کوئی چیز خرید لے، جب کسرات کا نرخ معین ہو، اگر نرخ معین نہ ہو اور وہ یہ کہے کہ ہر روز کے نرخ کے حساب سے میں لیا کروں گا تو درست نہیں، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، کبھی نرخ بڑھ جاتا ہے کبھی نرخ گھٹ جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»
قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ بَاعَ طَعَامًا جِزَافًا وَلَمْ يَسْتَثْنِ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ مِنْهُ شَيْئًا، إِلَّا مَا كَانَ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مِنْهُ، وَذَلِكَ الثُّلُثُ فَمَا دُونَهُ، فَإِنْ زَادَ عَلَى الثُّلُثِ، صَارَ ذَلِكَ إِلَى الْمُزَابَنَةِ، وَإِلَى مَا يُكْرَهُ، فَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا مَا كَانَ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مِنْهُ، وَلَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مِنْهُ إِلَّا الثُّلُثَ، فَمَا دُونَهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے اناج کا ڈھیر لگا کر بیچ ڈالا اور اس میں سے کچھ مستثنیٰ نہ کیا، بعد اس کے پھر اس میں سے کچھ خریدنا چاہے تو اسی قدر خرید سکتا ہے جتنے کا استثنیٰ درست ہے، یعنی تہائی تک یا تہائی سے کم، اگر تہائی سے زیادہ ہو گا تو مزابنہ کی مانند مکروہ ہوگا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس حکم میں اختلاف نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 54»