صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
144. بَابُ يُكَبِّرُ وَهْوَ يَنْهَضُ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ:
باب: جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو تکبیر کہے۔
حدیث نمبر: 826
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ صَلَاةً خَلْفَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ كَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ"، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي، فَقَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: لَقَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ آپ نے جب سجدہ کیا، سجدہ سے سر اٹھایا دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوئے تو ہر مرتبہ تکبیر کہی۔ جب آپ نے سلام پھیر دیا تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ انہوں نے واقعی ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھائی ہے یا یہ کہا کہ مجھے انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 835  
´تکبیر پوری کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو «الله اكبر» کہتے، جب رکوع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 835]
835۔ اردو حاشیہ:
دراصل لوگوں نے تکبیرات انتقال کہنی چھوڑ دی تھیں، تو حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اسی سنت کی طرف اشارہ فرمایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 835   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1083  
´سجدہ کرنے کے لیے اللہ اکبر کہنے کا بیان۔`
مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما دونوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1083]
1083۔ اردو حاشیہ:
➊ پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔
➋ حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انہوں نے ان کا احیا (انہیں زندہ) کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1083   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 826  
826. حضرت مطرف سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین ؓ نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، چنانچہ وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز پڑھائی یا کہا کہ انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:826]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
بعض ائمہ بنی امیہ نے بآواز بلند اس طرح تکبیر کہنا چھوڑدیا تھا جو اسوہ نبوی کے خلاف تھا اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دور سلف میں مسلمانوں کو اسوہ رسول کی اطاعت کا بے حد اشتیاق رہتا تھا خاص طور پر نمازکے بارے میں ان کی کوشش ہوتی کہ وہ عین سنت رسول ﷺ کے مطابق نماز ادا کر سکیں۔
اس دور آخر میں صرف اپنے اپنے فرضی اماموں کی تقلید کا جذبہ باقی رہ گیا ہے حالانکہ ایک مسلمان کا اولین مقصد سنت نبوی کی تلاش ہونا چا ہیے۔
ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ نے صاف فرمادیا ہے کہ ہر وقت صحیح حدیث کی تلاش میں رہو اگر میرا کوئی مسئلہ حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے چھوڑ دو اورصحیح حدیث نبوی پر عمل کرو۔
حضرت امام کی اس پاکیزہ وصیت پر عمل کرنے والے آج کتنے ہیں؟ یہ ہر سمجھ دار مسلمان کے غور کرنے کی چیز ہے یونہی لکیر کے فقیر ہو کر رسمی نمازیں ادا کرتے رہنا اور سنت نبوی کو تلاش نہ کرنا کسی بابصیرت مسلمان کا کام نہیں۔
وقفنا اللہ لما یحب ویرضی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 826   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:826  
826. حضرت مطرف سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین ؓ نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، چنانچہ وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز پڑھائی یا کہا کہ انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:826]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور حضرت ابن زبیر ؓ کے عمل سے مذکورہ احادیث کی وضاحت کی ہے کہ تکبیر کی ابتدا دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت ہی ہو جانی چاہیے کیونکہ یہ احادیث اس کے متعلق صریح نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 3939/2)
دراصل شارع کا منشا یہ ہے کہ جب نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال ہو تو حرکت انتقال اللہ کے ذکر سے معمور ہونی چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت ہی اللہ اکبر شروع کر دیا جائے۔
(2)
اس سے مالکیہ کا رد مقصود ہے جن کا موقف ہے کہ جب نمازی سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر "اللہ أکبر" کہے۔
ان کے موقف کے مطابق آخری دونوں رکعات کا پہلی دو رکعات سے تشاکل ہو جائے گا لیکن امور شرعیہ کا مدار یہ نہیں ہے۔
اس کے لیے اسلاف کا تعامل بھی دیکھنا چاہیے اور وہ مالکیہ کے موقف کے برعکس ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 826