حضرت زید بن اسلم نے کہا: ایامِ جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا، ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو، جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے: یا تم قرض ادا کرو یا سود دو، اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے، نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر کی کراہت میں کچھ اختلاف نہیں۔ ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرض خواہ قرض میں کمی کر دے اور قرض دار نقد ادا کردے، یہ بعینہ ایسا ہے کہ میعاد گزرنے کے بعد قرض خواہ میعاد بڑھا دے اور قرض دار قرض کو بڑھا دے، یہ تو بالکل سود ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر، جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے: تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں، ڈیڑھ سو دینار کو بیچ ڈال ایک میعاد پر، یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی، اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی، بعوض پچاس دینار کے، جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے، اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا، نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔