موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
39. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ
قرض میں سود کا بیان
قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ الْمَكْرُوهُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا: أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الدَّيْنُ إِلَى أَجَلٍ، فَيَضَعُ عَنْهُ الطَّالِبُ وَيُعَجِّلُهُ الْمَطْلُوبُ، وَذَلِكَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤَخِّرُ دَيْنَهُ بَعْدَ مَحِلِّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَيَزِيدُهُ الْغَرِيمُ فِي حَقِّهِ، قَالَ: فَهَذَا الرِّبَا بِعَيْنِهِ، لَا شَكَّ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر کی کراہت میں کچھ اختلاف نہیں۔ ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرض خواہ قرض میں کمی کر دے اور قرض دار نقد ادا کردے، یہ بعینہ ایسا ہے کہ میعاد گزرنے کے بعد قرض خواہ میعاد بڑھا دے اور قرض دار قرض کو بڑھا دے، یہ تو بالکل سود ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 83»