موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقِرَاضِ -- کتاب: قراض کے بیان میں
3. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ فِي الْقِرَاضِ
جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَجُلٍ دَيْنٌ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُقِرَّهُ عِنْدَهُ قِرَاضًا، إِنَّ ذَلِكَ يُكْرَهُ حَتَّى يَقْبِضَ مَالَهُ، ثُمَّ يُقَارِضُهُ بَعْدُ أَوْ يُمْسِكُ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ أَعْسَرَ بِمَالِهِ، فَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُؤَخِّرَ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَزِيدَهُ فِيهِ. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَهَلَكَ بَعْضُهُ، قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ، ثُمَّ عَمِلَ فِيهِ فَرَبِحَ، فَأَرَادَ أَنْ يَجْعَلَ رَأْسَ الْمَالِ بَقِيَّةَ الْمَالِ بَعْدَ الَّذِي هَلَكَ مِنْهُ، قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ، قَالَ مَالِكٌ: لَا يُقْبَلُ قَوْلُهُ، وَيُجْبَرُ رَأْسُ الْمَالِ مِنْ رِبْحِهِ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ عَلَى شَرْطِهِمَا، مِنَ الْقِرَاضِ. قالَ مَالِكٌ: لَا يَصْلُحُ الْقِرَاضُ إِلَّا فِي الْعَيْنِ مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ، وَلَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْعُرُوضِ، وَالسِّلَعِ، وَمِنَ الْبُيُوعِ مَا يَجُوزُ إِذَا تَفَاوَتَ أَمْرُهُ، وَتَفَاحَشَ رَدُّهُ، فَأَمَّا الرِّبَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا الرَّدُّ أَبَدًا، وَلَا يَجُوزُ مِنْهُ قَلِيلٌ، وَلَا كَثِيرٌ، وَلَا يَجُوزُ فِيهِ مَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهِ، لِأَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: ﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لَا تَظْلِمُونَ، وَلَا تُظْلَمُونَ﴾.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو، پھر قرضدار یہ کہے قرض خواہ سے: تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس، تو یہ درست نہیں، بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کر لے، پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پر دے یا اپنے پاس رکھ چھوڑے، کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کر دینے میں ربا کا شبہ ہے، گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر، پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہوگیا قبل تجارت شروع کرنے کے، پھر مضارب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کر کے نفع کمایا، اب مضارب یہ چاہے کہ رأس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے، اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے، تو یہ نہیں ہوسکتا، بلکہ رأس المال کی تکمیل کر کے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کرلیں گے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں، اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں، لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ اُن کا دشوار ہو، تو جائز ہوجائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل وکثیر حرام ہے، کسی طرح جائز نہیں، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: اگر تم توبہ کرو ربا سے، تو تم کو اصل مال ملے گا، نہ ظلم کرو نہ ظلم کیے جاؤ۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»