موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقِرَاضِ -- کتاب: قراض کے بیان میں
5. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ الشَّرْطِ فِي الْقِرَاضِ
جو شرط مضاربت میں درست نہیں اس کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: لَا يَنْبَغِي لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ لِنَفْسِهِ شَيْئًا مِنَ الرِّبْحِ خَالِصًا. دُونَ الْعَامِلِ. وَلَا يَنْبَغِي لِلْعَامِلِ أَنْ يَشْتَرِطَ لِنَفْسِهِ شَيْئًا مِنَ الرِّبْحِ خَالِصًا. دُونَ صَاحِبِهِ. وَلَا يَكُونُ مَعَ الْقِرَاضِ بَيْعٌ، وَلَا كِرَاءٌ، وَلَا عَمَلٌ، وَلَا سَلَفٌ، وَلَا مِرْفَقٌ يَشْتَرِطُهُ أَحَدُهُمَا لِنَفْسِهِ دُونَ صَاحِبِهِ. إِلَّا أَنْ يُعِينَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ عَلَى غَيْرِ شَرْطٍ. عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ. إِذَا صَحَّ ذَلِكَ مِنْهُمَا. وَلَا يَنْبَغِي لِلْمُتَقَارِضَيْنِ أَنْ يَشْتَرِطَ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ زِيَادَةً، مِنْ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ وَلَا طَعَامٍ، وَلَا شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ. يَزْدَادُهُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ. قَالَ: فَإِنْ دَخَلَ الْقِرَاضَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ، صَارَ إِجَارَةً، وَلَا تَصْلُحُ الْإِجَارَةُ إِلَّا بِشَيْءٍ ثَابِتٍ مَعْلُومٍ، وَلَا يَنْبَغِي لِلَّذِي أَخَذَ الْمَالَ أَنْ يَشْتَرِطَ، مَعَ أَخْذِهِ الْمَالَ، أَنْ يُكَافِئَ. وَلَا يُوَلِّيَ مِنْ سِلْعَتِهِ أَحَدًا، وَلَا يَتَوَلَّى مِنْهَا شَيْئًا لِنَفْسِهِ، فَإِذَا وَفَرَ الْمَالُ. وَحَصَلَ عَزْلُ رَأْسِ الْمَالِ، ثُمَّ اقْتَسَمَا الرِّبْحَ عَلَى شَرْطِهِمَا. فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِلْمَالِ رِبْحٌ. أَوْ دَخَلَتْهُ وَضِيعَةٌ. لَمْ يَلْحَقِ الْعَامِلَ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ. لَا مِمَّا أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ. وَلَا مِنَ الْوَضِيعَةِ، وَذَلِكَ عَلَى رَبِّ الْمَالِ فِي مَالِهِ، وَالْقِرَاضُ جَائِزٌ عَلَى مَا تَرَاضَى عَلَيْهِ رَبُّ الْمَالِ، وَالْعَامِلُ مِنْ نِصْفِ الرِّبْحِ أَوْ ثُلُثِهِ أَوْ رُبُعِهِ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ. قَالَ مَالِكٌ: لَا يَجُوزُ لِلَّذِي يَأْخُذُ الْمَالَ قِرَاضًا أَنْ يَشْتَرِطَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ سِنِينَ لَا يُنْزَعُ مِنْهُ. قَالَ: وَلَا يَصْلُحُ لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ أَنَّكَ لَا تَرُدُّهُ إِلَيَّ سِنِينَ، لِأَجَلٍ يُسَمِّيَانِهِ. لِأَنَّ الْقِرَاضَ لَا يَكُونُ إِلَى أَجَلٍ. وَلَكِنْ يَدْفَعُ رَبُّ الْمَالِ مَالَهُ إِلَى الَّذِي يَعْمَلُ لَهُ فِيهِ، فَإِنْ بَدَا لِأَحَدِهِمَا أَنْ يَتْرُكَ ذَلِكَ. وَالْمَالُ نَاضٌّ لَمْ يَشْتَرِ بِهِ شَيْئًا، تَرَكَهُ. وَأَخَذَ صَاحِبُ الْمَالِ مَالَهُ، وَإِنْ بَدَا لِرَبِّ الْمَالِ أَنْ يَقْبِضَهُ، بَعْدَ أَنْ يَشْتَرِيَ بِهِ سِلْعَةً. فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ، حَتَّى يُبَاعَ الْمَتَاعُ، وَيَصِيرَ عَيْنًا، فَإِنْ بَدَا لِلْعَامِلِ أَنْ يَرُدَّهُ، وَهُوَ عَرْضٌ، لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَهُ. حَتَّى يَبِيعَهُ، فَيَرُدَّهُ عَيْنًا كَمَا أَخَذَهُ. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَصْلُحُ لِمَنْ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا، أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَيْهِ الزَّكَاةَ فِي حِصَّتِهِ مِنَ الرِّبْحِ خَاصَّةً، لِأَنَّ رَبَّ الْمَالِ، إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ، فَقَدِ اشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ، فَضْلًا مِنَ الرِّبْحِ ثَابِتًا. فِيمَا سَقَطَ عَنْهُ مِنْ حِصَّةِ الزَّكَاةِ. الَّتِي تُصِيبُهُ مِنْ حِصَّتِهِ. وَلَا يَجُوزُ لِرَجُلٍ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى مَنْ قَارَضَهُ، أَنْ لَا يَشْتَرِيَ إِلَّا مِنْ فُلَانٍ. لِرَجُلٍ يُسَمِّيهِ. فَذَلِكَ غَيْرُ جَائِزٍ. لِأَنَّهُ يَصِيرُ لَهُ أَجِيرًا بِأَجْرٍ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ. قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يَدْفَعُ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا. وَيَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ الْمَالَ الضَّمَانَ، قَالَ: لَا يَجُوزُ لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ فِي مَالِهِ غَيْرَ مَا وُضِعَ الْقِرَاضُ عَلَيْهِ، وَمَا مَضَى مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِيهِ، فَإِنْ نَمَا الْمَالُ عَلَى شَرْطِ الضَّمَانِ. كَانَ قَدِ ازْدَادَ فِي حَقِّهِ مِنَ الرِّبْحِ مِنْ أَجْلِ مَوْضِعِ الضَّمَانِ. وَإِنَّمَا يَقْتَسِمَانِ الرِّبْحَ عَلَى مَا لَوْ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ عَلَى غَيْرِ ضَمَانٍ. وَإِنْ تَلِفَ الْمَالُ لَمْ أَرَ عَلَى الَّذِي أَخَذَهُ ضَمَانًا، لِأَنَّ شَرْطَ الضَّمَانِ فِي الْقِرَاضِ بَاطِلٌ. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا. وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَبْتَاعَ بِهِ إِلَّا نَخْلًا أَوْ دَوَابَّ. لِأَجْلِ أَنَّهُ يَطْلُبُ ثَمَرَ النَّخْلِ أَوْ نَسْلَ الدَّوَابِّ. وَيَحْبِسُ رِقَابَهَا، قَالَ مَالِكٌ: لَا يَجُوزُ هَذَا، وَلَيْسَ هَذَا مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْقِرَاضِ. إِلَّا أَنْ يَشْتَرِيَ ذَلِكَ. ثُمَّ يَبِيعَهُ كَمَا يُبَاعُ غَيْرُهُ مِنَ السِّلَعِ. قَالَ مَالِكٌ: لَا بَأْسَ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُقَارِضُ عَلَى رَبِّ الْمَالِ غُلَامًا يُعِينُهُ بِهِ. عَلَى أَنْ يَقُومَ مَعَهُ الْغُلَامُ فِي الْمَالِ. إِذَا لَمْ يَعْدُ أَنْ يُعِينَهُ فِي الْمَالِ. لَا يُعِينُهُ فِي غَيْرِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رب المال کو یہ درست نہیں کہ نفع میں سے کچھ خاص اپنے لیے نکال لے، نہ مضارب کو درست ہے، اور مضاربت کے ساتھ یہ درست نہیں کہ کسی بیع یا کرائے یا قرض یا اور کوئی احسان کی شرط ہو، البتہ یہ درست ہے کہ بلا شرط ایک دوسرے کی مدد کرے موافق دستور کے، اور یہ درست نہیں کہ کوئی ان میں سے دوسرے پر زیادتی کی شرط کر لے، خواہ وہ زیادتی سونے یا چاندی یا طعام یا اور کسی قسم سے ہو، اگر مضاربت میں ایسی شرطیں ہوں تو وہ اجارہ ہو جائے گا، پھر اجارہ درست نہیں مگر معین معلوم اجرت کے بدلے میں، اور مضاربت کو درست نہیں کہ کسی کے احسان کا بدلہ مضاربت میں سے ادا کرے، نہ یہ درست ہے کہ مضاربت کے مال کو تولیہ کے طور پر دے، یا آپ لے۔ اگر مال میں نفع ہو تو دونوں نفع کو بانٹ لیں گے اپنی شرط کے موافق، اگر نفع نہ ہو یا نقصان ہو تو مضارب پر ضمان نہ ہوگا، نہ اپنے خرچ کا نہ نقصان کا، بلکہ مالک کا ہوگا۔ اور مضاربت درست ہے جب رب المال اور مضارب راضی ہوجائیں نفع کے تقسیم کرنے پر، آدھوں آدھ یا دوتہائی رب المال کا اور ایک تہائی مضارب کا یا تین چوتھائی رب المال کے اور ایک چوتھائی مضارب کا یا اس سے کم یا زیادہ۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضارب اگر یہ شرط کرے کہ اتنے برس تک رأس المال مجھ سے واپس نہ لیا جائے، یا رب المال یہ شرط کرے کہ اتنے برس تک مضارب رأس المال نہ دے، تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ مضاربت میں میعاد نہیں ہو سکتی جب رب المال اپنا روپیہ مضارب کے حوالے کرے، اور مضارب کو اس میں تجارت کرنا اچھا معلوم نہ ہو، اگر وہ روپیہ بجنسہ اسی طرح موجود ہے تو رب المال اپنا روپیہ لے لے، اگر مضارب ان روپوں کے بدلے میں کوئی اسباب خرید کر چکا تو رب المال اس اسباب کو نہیں لے سکتا، نہ مضارب دے سکتا ہے جب تک اس اسباب کو بیچ کر نقد روپیہ نہ کر لے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رب المال مضارب سے یہ شرط کر لے کہ زکوٰة اپنے نفع کے حصّہ میں سے دینا تو درست نہیں، نہ رب المال کو یہ شرط لگانا درست ہے کہ مضارب خواہ مخواہ فلانے ہی شخص سے اسباب خریدے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر رب المال مضارب پر ضمان کی شرط کر لے تو درست نہیں، اس صورت میں اگر نفع ہو تو مضارب کو شرط سے زیادہ اس وجہ سے کہ اس نے نقصان کا تاوان لیا تھا نہ ملے گا، اگر مال تلف ہوا یا اس میں نقصان ہو تو مضارب پر تاوان نہ ہوگا، گو اس نے تاوان کی شرط لگائی ہو۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر رب المال نےمضارب سے یہ شرط لگائی کہ رأس المال کے بدلے میں کھجور کے درخت یا جانور خرید کرنا، پھر اس کے پھل اور بچوں کو بیچا کرنا، مگر جانوروں کو اور درختوں کو نہ بیچنا تو یہ درست نہیں، نہ یہ مضاربت کا طریقہ ہے، البتہ اگر ان درختوں یا جانوروں کو خرید کر بیچ ڈالے جیسے اور اسباب بیچتا ہے تو درست ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مضارب رب المال سے یہ شرط کر لے کہ رأس المال میں سے ایک غلام خرید لوں گا جو میری اعانت کرے گا، تو درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 3»