موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقِرَاضِ -- کتاب: قراض کے بیان میں
6. بَابُ الْقِرَاضِ فِي الْعُرُوضِ
اسباب میں مضاربت کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُقَارِضَ أَحَدًا إِلَّا فِي الْعَيْنِ لِأَنَّهُ لَا تَنْبَغِي الْمُقَارَضَةُ فِي الْعُرُوضِ، لِأَنَّ الْمُقَارَضَةَ فِي الْعُرُوضِ إِنَّمَا تَكُونُ عَلَى أَحَدِ وَجْهَيْنِ، إِمَّا أَنْ يَقُولَ لَهُ صَاحِبُ الْعَرْضِ، خُذْ هَذَا الْعَرْضَ فَبِعْهُ. فَمَا خَرَجَ مِنْ ثَمَنِهِ فَاشْتَرِ بِهِ. وَبِعْ عَلَى وَجْهِ الْقِرَاضِ. فَقَدِ اشْتَرَطَ صَاحِبُ الْمَالِ فَضْلًا لِنَفْسِهِ مِنْ بَيْعِ سِلْعَتِهِ، وَمَا يَكْفِيهِ مِنْ مَئُونَتِهَا أَوْ يَقُولَ: اشْتَرِ بِهَذِهِ السِّلْعَةِ وَبِعْ. فَإِذَا فَرَغْتَ فَابْتَعْ لِي مِثْلَ عَرْضِي الَّذِي دَفَعْتُ إِلَيْكَ. فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ. وَلَعَلَّ صَاحِبَ الْعَرْضِ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى الْعَامِلِ فِي زَمَنٍ هُوَ فِيهِ نَافِقٌ. كَثِيرُ الثَّمَنِ. ثُمَّ يَرُدَّهُ الْعَامِلُ حِينَ يَرُدُّهُ وَقَدْ رَخُصَ. فَيَشْتَرِيَهُ بِثُلُثِ ثَمَنِهِ. أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ. فَيَكُونُ الْعَامِلُ قَدْ رَبِحَ نِصْفَ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِ الْعَرْضِ. فِي حِصَّتِهِ مِنَ الرِّبْحِ. أَوْ يَأْخُذَ الْعَرْضَ فِي زَمَانٍ ثَمَنُهُ فِيهِ قَلِيلٌ. فَيَعْمَلُ فِيهِ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ فِي يَدَيْهِ. ثُمَّ يَغْلُو ذَلِكَ الْعَرْضُ وَيَرْتَفِعُ ثَمَنُهُ حِينَ يَرُدُّهُ. فَيَشْتَرِيهِ بِكُلِّ مَا فِي يَدَيْهِ. فَيَذْهَبُ عَمَلُهُ وَعِلَاجُهُ بَاطِلًا، فَهَذَا غَرَرٌ لَا يَصْلُحُ. فَإِنْ جُهِلَ ذَلِكَ. حَتَّى يَمْضِيَ نُظِرَ إِلَى قَدْرِ أَجْرِ الَّذِي دُفِعَ إِلَيْهِ الْقِرَاضُ، فِي بَيْعِهِ إِيَّاهُ، وَعِلَاجِهِ فَيُعْطَاهُ. ثُمَّ يَكُونُ الْمَالُ قِرَاضًا مِنْ يَوْمَ نَضَّ الْمَالُ. وَاجْتَمَعَ عَيْنًا. وَيُرَدُّ إِلَى قِرَاضٍ مِثْلِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مضاربت نہیں درست ہے مگر سونے چاندی میں، اور اسباب میں درست نہیں کیونکہ اسباب میں مضاربت دو طرح پر ہوگی، ایک یہ کہ رب المال مضارب کو اسباب دے اور کہے کہ اس کو بیچ کر اس کے داموں میں مضاربت کر، یہ درست نہیں، کیونکہ اس میں رب المال کا ایک خاص فائدہ ہوا، وہ یہ کہ اس کا اسباب بغیر وقت کے بک گیا، دوسری شکل یہ ہے کہ رب المال مضارب کو اسباب دے کر یہ کہے کہ اس اسباب کے بدلے میں اور اسباب خرید کر کے تجارت کر، جب معاملہ ختم کرنا منظور ہو تو جیسا اسباب میں نے دیا ہے ویسا ہی اسباب خرید کر کے دینا، جو بچ رہے وہ ہم تم بانٹ لیں گے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے، شائد جس وقت یہ اسباب رب المال نے مضارب کو دیا ہے گراں ہو، پھر جس وقت ارزاں ہو پھر معاملہ ختم ہوتے وقت گراں ہو جائے تو مضارب کا اصل اور نفع سب اس کی خرید میں صرف ہو جائے، اور مضارب کی کوشش اور محنت برباد ہو جائے، اس پر بھی اگر کوئی اس طرح مضاربت کرے تو پہلے مضارب کو اس اسباب کے بیچنےکے دستور کے موافق اُجرت دلا کر جس روز سے راس المال نقد ہوا ہے، مضاربت قائم کریں گے، پھر معاملہ ہوتے وقت بھی اس قدر نقد کو راس المال سمجھیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 32 - كِتَابُ الْقِرَاضِ-ح: 4»