موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقاۃ کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسَاقَاةِ
مساقاۃ کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ أَنْ يَقُولَ رَبُّ الْحَائِطِ لِرَجُلٍ مِنَ النَّاسِ: ابْنِ لِي هَاهُنَا بَيْتًا. أَوِ احْفِرْ لِي بِئْرًا. أَوْ أَجْرِ لِي عَيْنًا، أَوِ اعْمَلْ لِي عَمَلًا بِنِصْفِ ثَمَرِ حَائِطِي هَذَا قَبْلَ أَنْ يَطِيبَ ثَمَرُ الْحَائِطِ، وَيَحِلَّ بَيْعُهُ. فَهَذَا بَيْعُ الثَّمَرِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ. وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ گویا باغ کے مالک نے کسی سے کہا: تو میرے لیے ایک گھر بنا دے، یا کنواں کھود دے، یا چشمہ درست کرا دے، یا اور کوئی اس کے بدلے میں، میں تجھے اپنے باغ کے پھلوں میں سے آدھا حصّہ دوں گا، حالانکہ وہ پھل درست نہیں ہوئے، نہ ان کی بہتری کا حال معلوم ہے، یہ درست نہیں اس لیے کہ یہ بیع ہے پھلوں کی قبل ان کی بہتری معلوم ہونے کے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا۔ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر پھل اچھے طور سے نکل آئے ہوں، اور ان کی بہتری کا یقین ہوگیا ہو، پھر کوئی شخص ان پھلوں کے بدلے میں ان کاموں میں سے کوئی کام کرے، تو کچھ قباحت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 33 - كِتَابُ الْمُسَاقَاةِ-ح: 2»