موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الرَّهْنِ -- کتاب: گروی رکھنے کے بیان میں
1. بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنْ غَلَقِ الرَّهْنِ
رہن کا روکنا درست نہیں ہے
قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ: أَنْ يَرْهَنَ الرَّجُلُ الرَّهْنَ عِنْدَ الرَّجُلِ بِالشَّيْءِ وَفِي الرَّهْنِ فَضْلٌ عَمَّا رُهِنَ بِهِ، فَيَقُولُ الرَّاهِنُ لِلْمُرْتَهِنِ: إِنْ جِئْتُكَ بِحَقِّكَ إِلَى أَجَلٍ يُسَمِّيهِ لَهُ، وَإِلَّا فَالرَّهْنُ لَكَ بِمَا رُهِنَ فِيهِ، قَالَ: فَهَذَا لَا يَصْلُحُ وَلَا يَحِلُّ، وَهَذَا الَّذِي نُهِيَ عَنْهُ، وَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهُ بِالَّذِي رَهَنَ بِهِ بَعْدَ الْأَجَلِ، فَهُوَ لَهُ، وَأُرَى هَذَا الشَّرْطَ مُنْفَسِخًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص سو روپے کا مال پچھتّر روپے میں گروی رکھے، اور یہ کہہ دے کہ اگر اتنی مدت تک میں نہ چھڑاؤں تو یہ مال تیرا ہو جائے گا، یہ درست نہیں ہے، اگر ایسا ہے بھی تو جب راہن زرِ رہن ادا کرے مرتہن کو وہ مال دینا پڑے گا اور شرط لغو ہو جائے گی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 13»