موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الرَّهْنِ -- کتاب: گروی رکھنے کے بیان میں
13. بَابُ الْقَضَاءِ فِي مِيرَاثِ الْوَلَدِ الْمُسْتَلْحَقِ
جو لڑکا کسی شخص سے ملایا جائے اس کی وارث ہونے کا بیان
قَالَ مَالِكٌ: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ يَهْلِكَ الرَّجُلُ، وَيَتْرُكَ ابْنَيْنِ لَهُ، وَيَتْرُكَ سِتَّمِائَةِ دِينَارٍ، فَيَأْخُذُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا ثَلَاثَمِائَةِ دِينَارٍ، ثُمَّ يَشْهَدُ أَحَدُهُمَا أَنَّ أَبَاهُ الْهَالِكَ أَقَرَّ أَنَّ فُلَانًا ابْنُهُ. فَيَكُونُ عَلَى الَّذِي شَهِدَ لِلَّذِي اسْتُلْحِقَ، مِائَةُ دِينَارٍ. وَذَلِكَ نِصْفُ مِيرَاثِ الْمُسْتَلْحَقِ، لَوْ لَحِقَ. وَلَوْ أَقَرَّ لَهُ الْآخَرُ أَخَذَ الْمِائَةَ الْأُخْرَى. فَاسْتَكْمَلَ حَقَّهُ وَثَبَتَ نَسَبُهُ. وَهُوَ أَيْضًا بِمَنْزِلَةِ الْمَرْأَةِ تُقِرُّ بِالدَّيْنِ عَلَى أَبِيهَا أَوْ عَلَى زَوْجِهَا. وَيُنْكِرُ ذَلِكَ الْوَرَثَةُ، فَعَلَيْهَا أَنْ تَدْفَعَ إِلَى الَّذِي أَقَرَّتْ لَهُ بِالدَّيْنِ قَدْرَ الَّذِي يُصِيبُهَا مِنْ ذَلِكَ الدَّيْنِ. لَوْ ثَبَتَ عَلَى الْوَرَثَةِ كُلِّهِمْ. إِنْ كَانَتِ امْرَأَةً وَرِثَتِ الثُّمُنَ، دَفَعَتْ إِلَى الْغَرِيمِ ثُمُنَ دَيْنِهِ، وَإِنْ كَانَتِ ابْنَةً وَرِثَتِ النِّصْفَ، دَفَعَتْ إِلَى الْغَرِيمِ نِصْفَ دَيْنِهِ. عَلَى حِسَابِ هَذَا يَدْفَعُ إِلَيْهِ مَنْ أَقَرَّ لَهُ مِنَ النِّسَاءِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے ایک شخص مر جائے اور دو بیٹے چھوڑ جائے اور چھ سو دینار، ہر ایک بیٹا تین تین سو دینار لے، پھر ایک بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے اقرار کیا تھا اس امر کا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے، تو وہ اپنے حصّے میں سے اس کو سو دینار دے، کیونکہ ایک وارث نے اقرار کیا ایک نے اقرار نہ کیا، تو اس کو آدھا حصّہ ملے گا، اگر وہ بھی اقرار کر لیتا تو پورا حصّہ یعنی دو سو دینار ملتے اور نسب ثابت ہوجاتا، اس کی مثال یہ ہے ایک عورت اپنے باپ یا خاوند کے ذمے پر قرض کا اقرار کرے، اور باقی وارث انکار کریں، تو وہ اپنے حصّے کے موافق اس میں سے قرضہ ادا کرے، اسی حساب سے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 24ق»