موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْقَسَامَةِ -- کتاب: قسامت کے بیان میں
1. بَابُ تَبْدِئَةِ أَهْلِ الدَّمِ فِي الْقَسَامَةِ
قسامت میں پہلے وارثوں سے قسم لینے کا بیان
حدیث نمبر: 1539
قَالَ يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ فَأَتَى هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرْ كَبِّرْ"، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ فَذَكَرَا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَحْضُرْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: فَزَعَمَ بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ" .
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود خیبر کو گئے، وہاں جا کر اپنے اپنے کاموں کے واسطے جدا ہوگئے۔ عبداللہ بن سہل کو کسی نے مار ڈالا، تو محیصہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو عبدالرحمٰن نے بات کرنی چاہی اپنے بھائی کے مقدمے میں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بزرگی کی رعایت کر۔ تو حویصہ اور محیصہ نے قصہ بیان کیا عبداللہ بن سہل کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پچاس قسمیں کھاتے ہو (اس بات پر کہ فلاں شخص نے اس کو مار ڈالا ہے)، اگر کھاؤ گے تو خون کا استحقاق (یا قاتل کا استحاق) تمہیں حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! (ہم کیونکر کھائیں) ہم اس وقت موجود نہ تھے، نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو یہودی پچاس قسمیں کھا کر بری ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کافر ہیں، ان کی قسمیں ہم کیونکر قبول کریں گے۔ بشیر بن یسار نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت ادا کی۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2702، 3173، 6142، 6898، 7192، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1669، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2384، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6009، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4722، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1638، 4520، 4521، 4523، 4524، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1422، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2398، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2677، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11553،، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16198، والحميدي فى «مسنده» برقم: 407، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18258، فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا، وَالَّذِي سَمِعْتُ مِمَّنْ أَرْضَى فِي الْقَسَامَةِ، وَالَّذِي اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِ الْأَئِمَّةُ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ، أَنْ يَبْدَأَ بِالْأَيْمَانِ الْمُدَّعُونَ فِي الْقَسَامَةِ فَيَحْلِفُونَ، وَأَنَّ الْقَسَامَةَ لَا تَجِبُ إِلَّا بِأَحَدِ أَمْرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يَقُولَ الْمَقْتُولُ: دَمِي عِنْدَ فُلَانٍ، أَوْ يَأْتِيَ وُلَاةُ الدَّمِ بِلَوْثٍ مِنْ بَيِّنَةٍ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ قَاطِعَةً عَلَى الَّذِي يُدَّعَى عَلَيْهِ الدَّمُ، فَهَذَا يُوجِبُ الْقَسَامَةَ لِلْمُدَّعِينَ الدَّمَ عَلَى مَنِ ادَّعَوْهُ عَلَيْهِ، وَلَا تَجِبُ الْقَسَامَةُ عِنْدَنَا إِلَّا بِأَحَدِ هَذَيْنِ الْوَجْهَيْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے اور میں نے بہت سے اچھے عالموں سے سنا ہے، اور اس پر اتفاق کیا ہے اگلے اور پچھلے علماء نے کہ قسامت میں پہلے مدعیوں سے قسم لی جائے گی، وہ قسم کھائیں (اگر وہ قسم نہ کھائیں تو مدعی علیہم سے قسم لی جائے گی، اگر وہ قسم کھالیں گے تو بری ہوجائیں گے)، اور قسامت دو امروں میں ایک امر سے لازم ہوتی ہے، یا تو مقتول خود کہے مجھ کو فلانے نے مارا ہے (اور گواہ نہ ہوں)، یا مقتول کے وارث کسی پر اپنا اشتباہ ظاہر کریں اور گواہی کامل نہ ہو تو انہیں دو وجہوں سے قسامت لازم آئے گی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2»
قَالَ مَالِكٌ: وَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا عِنْدَنَا، وَالَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ عَمَلُ النَّاسِ، أَنَّ الْمُبَدَّئِينَ بِالْقَسَامَةِ أَهْلُ الدَّمِ، وَالَّذِينَ يَدَّعُونَهُ فِي الْعَمْدِ وَالْخَطَإِ. قالَ مَالِكٌ: وَقَدْ بَدَّأَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَارِثِيِّينَ فِي قَتْلِ صَاحِبِهِمِ الَّذِي قُتِلَ بِخَيْبَرَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس سنّت میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ پہلے قسم ان لوگوں سے لی جائے گی جو خون کے مدعی ہوں۔ خواہ قتلِ عمد ہو یا قتلِ خطاء، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی حارث سے جن کا عزیز خیبر میں مارا گیا تھا پہلے قسم کھانے کو فرمایا تھا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»
قَالَ مَالِكٌ: فَإِنْ حَلَفَ الْمُدَّعُونَ اسْتَحَقُّوا دَمَ صَاحِبِهِمْ، وَقَتَلُوا مَنْ حَلَفُوا عَلَيْهِ، وَلَا يُقْتَلُ فِي الْقَسَامَةِ إِلَّا وَاحِدٌ، لَا يُقْتَلُ فِيهَا اثْنَانِ، يَحْلِفُ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ خَمْسُونَ رَجُلًا خَمْسِينَ يَمِينًا، فَإِنْ قَلَّ عَدَدُهُمْ أَوْ نَكَلَ بَعْضُهُمْ، رُدَّتِ الْأَيْمَانُ عَلَيْهِمْ، إِلَّا أَنْ يَنْكُلَ أَحَدٌ مِنْ وُلَاةِ الْمَقْتُولِ، وُلَاةِ الدَّمِ الَّذِينَ يَجُوزُ لَهُمُ الْعَفْوُ عَنْهُ، فَإِنْ نَكَلَ أَحَدٌ مِنْ أُولَئِكَ، فَلَا سَبِيلَ إِلَى الدَّمِ إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِنْهُمْ. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّمَا تُرَدُّ الْأَيْمَانُ عَلَى مَنْ بَقِيَ مِنْهُمْ إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِمَّنْ لَا يَجُوزُ لَهُ عَفْوٌ، فَإِنْ نَكَلَ أَحَدٌ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ الَّذِينَ يَجُوزُ لَهُمُ الْعَفْوُ عَنِ الدَّمِ، وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا، فَإِنَّ الْأَيْمَانَ لَا تُرَدُّ عَلَى مَنْ بَقِيَ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ، إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنِ الْأَيْمَانِ، وَلَكِنِ الْأَيْمَانُ إِذَا كَانَ ذَلِكَ تُرَدُّ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِمْ، فَيَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسُونَ رَجُلًا خَمْسِينَ يَمِينًا، فَإِنْ لَمْ يَبْلُغُوا خَمْسِينَ رَجُلًا رُدَّتِ الْأَيْمَانُ عَلَى مَنْ حَلَفَ مِنْهُمْ، فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ أَحَدٌ يَحْلِفُ إِلَّا الَّذِي ادُّعِيَ عَلَيْهِ حَلَفَ هُوَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَبَرِئَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس سنّت میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ پہلے قسم ان لوگوں سے لی جائے گی جو خون کے مدعی ہوں۔ خواہ قتلِ عمد ہو یا قتلِ خطاء، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی حارث سے جن کا عزیز خیبر میں مارا گیا تھا پہلے قسم کھانے کو فرمایا تھا۔
_x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مدعی قسم کھالیں تو ان کو خون کا استحقاق ہوگا، وہ جس شخص پر قسم کھائیں اس کو قتل کر سکتے ہیں، مگر ایک ہی شخص کو، نہ کہ دو شخصوں کو یا زیادہ کو، تو پہلے مدعیوں سے پچاس قسمیں لی جائیں گی، جب وہ پچاس آدمی ہوں تو ہر ایک سے ایک ایک قسم لی جائے گی، اور پچاس سے کم ہوں یا بعض ان میں سے قسم کھانے سے انکار کریں تو مکرر قسمیں لے کر قسمیں پچاس پوری کریں گے، مگر جب مقتول کے وارثوں میں جن کو عفو کا اختیار ہے کوئی قسم کھانے سے انکار کرے گا تو پھر قصاص لازم نہ ہوگا، بلکہ جب ان لوگوں میں جن کو عفو کا اختیار نہیں کوئی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی لوگوں سے قسم لیں گے، اور جن کو عفو کا اختیار ہے ان میں سے اگر کوئی ایک بھی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی وارثوں کو بھی قسم نہ دیں گے۔ بلکہ اس صورت میں مدعیٰ علیہم کو قسم دیں گے، ان میں سے پچاس آدمیوں کو پچاس قسمیں دیں گے، اگر پچاس سے کم ہوں تو مکرر کر کے پچاس پوری کریں گے، اگر مدعیٰ علیہ ایک ہی ہو تو اس سے پچاس قسمیں لیں گے، جب وہ پچاس قسمیں کھا لے گا بری ہوجائے گا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»
قَالَ مَالِكٌ: وَإِنَّمَا فُرِقَ بَيْنَ الْقَسَامَةِ فِي الدَّمِ وَالْأَيْمَانِ فِي الْحُقُوقِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا دَايَنَ الرَّجُلَ اسْتَثْبَتَ عَلَيْهِ فِي حَقِّهِ، وَأَنَّ الرَّجُلَ إِذَا أَرَادَ قَتْلَ الرَّجُلِ لَمْ يَقْتُلْهُ فِي جَمَاعَةٍ مِنَ النَّاسِ، وَإِنَّمَا يَلْتَمِسُ الْخَلْوَةَ، قَالَ: فَلَوْ لَمْ تَكُنِ الْقَسَامَةُ إِلَّا فِيمَا تَثْبُتُ فِيهِ الْبَيِّنَةُ، وَلَوْ عُمِلَ فِيهَا كَمَا يُعْمَلُ فِي الْحُقُوقِ هَلَكَتِ الدِّمَاءُ، وَاجْتَرَأَ النَّاسُ عَلَيْهَا إِذَا عَرَفُوا الْقَضَاءَ فِيهَا، وَلَكِنْ إِنَّمَا جُعِلَتِ الْقَسَامَةُ إِلَى وُلَاةِ الْمَقْتُولِ، يُبَدَّءُونَ بِهَا فِيهَا، لِيَكُفَّ النَّاسُ عَنِ الدَّمِ، وَلِيَحْذَرَ الْقَاتِلُ أَنْ يُؤْخَذَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ بِقَوْلِ الْمَقْتُولِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مدعی قسم کھالیں تو ان کو خون کا استحقاق ہوگا، وہ جس شخص پر قسم کھائیں اس کو قتل کر سکتے ہیں، مگر ایک ہی شخص کو، نہ کہ دو شخصوں کو یا زیادہ کو، تو پہلے مدعیوں سے پچاس قسمیں لی جائیں گی، جب وہ پچاس آدمی ہوں تو ہر ایک سے ایک ایک قسم لی جائے گی، اور پچاس سے کم ہوں یا بعض ان میں سے قسم کھانے سے انکار کریں تو مکرر قسمیں لے کر قسمیں پچاس پوری کریں گے، مگر جب مقتول کے وارثوں میں جن کو عفو کا اختیار ہے کوئی قسم کھانے سے انکار کرے گا تو پھر قصاص لازم نہ ہوگا، بلکہ جب ان لوگوں میں جن کو عفو کا اختیار نہیں کوئی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی لوگوں سے قسم لیں گے، اور جن کو عفو کا اختیار ہے ان میں سے اگر کوئی ایک بھی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی وارثوں کو بھی قسم نہ دیں گے۔ بلکہ اس صورت میں مدعیٰ علیہم کو قسم دیں گے، ان میں سے پچاس آدمیوں کو پچاس قسمیں دیں گے، اگر پچاس سے کم ہوں تو مکرر کر کے پچاس پوری کریں گے، اگر مدعیٰ علیہ ایک ہی ہو تو اس سے پچاس قسمیں لیں گے، جب وہ پچاس قسمیں کھا لے گا بری ہوجائے گا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»
قَالَ مَالِكٌ: فِي الْقَوْمِ يَكُونُ لَهُمُ الْعَدَدُ يُتَّهَمُونَ بِالدَّمِ فَيَرُدُّ وُلَاةُ الْمَقْتُولِ الْأَيْمَانَ عَلَيْهِمْ، وَهُمْ نَفَرٌ لَهُمْ عَدَدٌ أَنَّهُ يَحْلِفُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ عَنْ نَفْسِهِ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَلَا تُقْطَعُ الْأَيْمَانُ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ عَدَدِهِمْ، وَلَا يَبْرَءُونَ دُونَ أَنْ يَحْلِفَ كُلُّ إِنْسَانٍ عَنْ نَفْسِهِ خَمْسِينَ يَمِينًا. قَالَ مَالِكٌ: وَهَذَا أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خون میں پچاس قسمیں لی جاتی ہیں، اور دعووں میں ایک قسم، اس واسطے کہ خون آدمی کسی کے سامنے نہیں کرتا بلکہ تنہائی میں کرتا ہے، تو اگر قسامت میں بھی مثل اور دعووں کے صرف گواہی سے کام چلتا تو بہت سے خون بیکار جاتے، اور لوگوں کی جرأت خون کرنے پر زیادہ ہو جاتی جب ان کو حکم کا حال معلوم ہو جاتا، لیکن قسامت پہلے مقتول کے وارثوں کی طرف رکھی گئی، تاکہ لوگ خون سے باز رہیں اور ڈریں کہ صرف مقتول کا قول کافی ہے اس باب میں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»
قَالَ مَالِكٌ: وَالْقَسَامَةُ تَصِيرُ إِلَى عَصَبَةِ الْمَقْتُولِ، وَهُمْ وُلَاةُ الدَّمِ الَّذِينَ يَقْسِمُونَ عَلَيْهِ وَالَّذِينَ يُقْتَلُ بِقَسَامَتِهِمْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک قوم کی قوم کو جس میں بہت آدمی ہوں خون کی تہمت لگے اور مقتول کے وارث ان سے قسم لینا چاہیں تو ہر شخص ان میں سے پچاس پچاس قسمیں کھائے گا، یہ نہ ہوگا کہ پچاس قسمیں سب پر تقسیم ہوجائیں، یہ میں نے اچھا سنا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قسامت مقتول کی عصبوں کی طرف ہوگی جو خون کے مالک ہیں، انہی کو قسم دی جاتی ہے، اور انہی کی قسم کھانے سے قصاص لیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 44 - كِتَابُ الْقَسَامَةِ-ح: 2ق1»